• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگست 1988 میں جب جنرل ضیا الحق بہاول پور کے قریب بستی لال کمال میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو بہت سے دانشوروں نے یہ ’’ تھیوری ‘‘ چلائی کہ جنرل ضیا الحق پاکستان کے آخری آمر تھے ۔ ان کے بعد پاکستان میں کوئی آمرحکومت قائم نہیں ہو گی ۔ یہ تھیوری متعدد دلائل کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی ۔ ایک دلیل یہ تھی کہ آمریت ان ملکوں میں قائم ہوتی ہے، جو سماجی طور پر بہت پسماندہ ہوتے ہیں اور جہاں تاجر ، صنعت کار اور متوسط طبقہ موجود نہیں ہوتا ۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ معیشت جڑیں پکڑچکی ہے ۔ متوسط طبقہ سیاسی طور پر فیصلہ کن کردار کا حامل ہو چکا ہے ۔ جمہوریت چونکہ سرمایہ داروں اور مڈل کلاس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہذا پاکستان میں جمہوریت کے متقاضی طبقات نہ صرف مضبوط ہوچکے ہیں بلکہ وہ کسی آمر کو اب اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے ۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ دنیا بھر میں آمرانہ اور مطلق العنان حکومتیں قائم اور ان کی پشت پناہی کرنے والا ملک امریکہ اپنا سامراجی نظریہ تبدیل کر چکا ہے اور وہ اب غیر جمہوری حکومتوں کی پشت پناہی نہیں کرے گا ۔ کیونکہ دنیا میں نوآبادیاتی عہد ختم ہو چکا ہے اور جدید نو آبادیاتی دور میں امریکہ کے لئے اپنے اوپر یہ الزام لینا بہت مشکل ہوگا کہ وہ آمرانہ اور مطلق العنان حکومتوں کا سرپرست ہے۔ جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد ویسے بھی سرد جنگ کا عہد اختتام پذیر ہوگیا تھا اور امریکہ دنیا میں اپنا ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ رائج کر چکا تھا ، جس میں جمہوریت اور قوموں کی آزادی کا نعرہ لگایا گیا تھا ۔
تیسری دلیل یہ دی جاتی تھی کہ سرد جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سینٹو ( سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ) اور سیٹو ( ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن ) جیسے بڑے فوجی اتحاد قائم کئے ہوئے تھے ۔ پاکستان ان دونوں عالمی اور علاقائی فوجی اتحادوں کا سب سے اہم رکن تھا ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستان کی ایک بہت بڑی فوج ہو ، جو اس خطے میں ان کے اسٹرٹیجک مفادات کا تحفظ کر سکے اور وہ فوج کمیونسٹ چین اور روس کے درمیان اس خطے میں اشتراکیت کے پھیلاؤ کو روک سکے ۔ اب چونکہ سرد جنگ ختم ہو چکی ہے ۔ لہذا سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی اتحادوں کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے ۔ چوتھی دلیل یہ دی جاتی تھی کہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا ہے ۔ اس نے نہ صرف سوویت یونین کا شیرازہ بکھیردیا ہے بلکہ دنیا میں اشتراکی بلاک بھی ٹوٹ چکا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان جیسے پرانے اتحادی سے جو کام لینا تھا ، وہ لے چکا ۔ اب امریکہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں سے کام لے گا اور ان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے گا ۔ کچھ لوگوں کی یہ بھی تھیوری تھی کہ پاکستان کی بہت بڑی اور طاقتور فوج امریکی مفادات کے لئے خود امریکہ میں خطرہ تصور کی جا رہی ہے ۔
یہ دلائل بہت مضبوط تھے ۔ بادی النظر میں حالات بھی ان دلائل کی تائید کر رہے تھے لیکن12 اکتوبر 1999 ء کو فوج پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں داخل ہوئی اور ایک منتخب وزیر اعظم کو ایک پک اپ گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ۔ جمہوریت جن طبقات کی ضرورت ہوتی ہے ، ان طبقات نے جنرل پرویز مشرف کا سب سے زیادہ خیر مقدم کیا ۔ جو حلقے جنرل ضیاالحق کو آخری فوجی آمر قرار دے رہے تھے ، وہ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضے کو ’’ نرم ‘‘ فوجی آمریت سے تعبیر کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف خود نہیں آنا چاہتے تھے ۔ وہ پرویز مشرف کی اس بات کی تائید کرتے تھے کہ ’’ انہیں کسی نے دھکا دیا ہے ۔ ‘‘ اس ’’ نرم ‘‘ فوجی آمریت میں سیاسی اور جمہوری قوتوں کو تاریخ کے سب سے مشکل دور کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس مرتبہ وہ آمریت کے خلاف موثر تحریک بھی نہ چلاسکے کیونکہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ دہشت گرد بن گئے اور ملک میں کسی تنزلی پسند ، اعتدال پسند اور روشن خیال سیاسی جماعت کو سیاسی سرگرمی کی جرات بھی نہ ہو سکی ۔ آمرانہ حکومت اور ریاست کو کسی جمہوری تحریک کو روکنے کی ضرورت بھی نہ پڑی ۔
جنرل پرویز مشرف ماضی کے کسی فوجی آمر کے انجام سے دوچار ہوئے بغیر 18 اگست 2008 ء کو مستعفی ہو کر ایوان صدر سے رخصت ہوئے تو انہیں بھی پاکستان کا آخری آمر حکمران قرار دیا گیا ۔ اس بات کی تائید میں مذکورہ بالا چار دلائل کے ساتھ ساتھ کچھ مزید دلائل بھی شامل کر لئے گئے۔ پانچویں دلیل یہ دی گئی کہ امریکہ کا ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ والا عہد بھی ختم ہو گیا ہے اور اب دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین ، روس اور پاکستان مل کر ایک نیا بلاک بنا رہے ہیں۔ پاکستان امریکی بلاک سے نکل رہا ہے ۔ لہذا اب جمہوریت مضبوط ہو گی ۔ چھٹی دلیل یہ پیش کی گئی کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جمہوریت پر شب خون مارنے کا راستہ بند ہو گیا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف آئین کے آرٹیکل ۔6 سے بال بال بچ گئے ہیں ۔ لہذا اب کوئی طالع آزما ملک میں آمریت نافذ کرنے کی مہم جوئی نہیں کرے گا ۔ نئی اور ساتویں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی استحکام ان قوتوں کی ضرورت ہے ، جن کا مفاد سی پیک سے وابستہ ہے ۔ لہذا چین اور سی پیک سے جڑی ہوئی دیگر عالمی طاقتیں پاکستان میں جمہوریت کی حفاظت کریں گی ۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ تعلقات کے تناظر میں ایک بار پھر ’’ آخری آمر ‘‘ والی تھیوری پر نئی بحث شروع ہو گئی ہے ۔ اس تھیوری کی تائید میں جو کتابی دلائل پیش کئے جاتے رہے ، وہ بدقسمتی سے پاکستان کے حالات پر منطبق نہیں ہوئے ۔ پاکستان عہد جدید کی ایک ایسی ریاست ہے ، جس پر کسی تھیوری کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ یہاں سرمایہ دار اور متوسط طبقے نے سب سے زیادہ آمریت کی حمایت کی ۔ موجودہ حالات میں امریکہ کا غیر جمہوری طاقتوں پر انحصار بڑھ گیا ہے اور پاکستان میں بیرونی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے کئی قوتیں موجود ہیں ۔ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی قوتوں کا پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات میں دلچسپی اور عمل دخل نہیں رہا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں کی خراب طرز حکمرانی کے ساتھ ساتھ آمریت کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے ۔ جہاں تک چین کا معاملہ ہے ۔ پاکستان کی آمرحکومتوں کے ساتھ چین کے تعلقات کبھی خراب نہیں رہے ۔ آخری آمر حکمراں ہونے کی تھیوری کی تائید کے لئے اللہ کرے ہمیں مزید دلائل ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔



.
تازہ ترین