• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکر الحمد للہ! پاکستان کے دن پھرتے لگتے ہیں۔ 6عشروں کے بعد 2008سے شروع ہونے والے جاری اختتام پذیر عشرے میں بالآخر انتہائی بالا سطح سے احتساب کے آغاز کا ناممکن ، ممکن ہو ہی گیا۔ منتخب حکومتوں کی بحیثیت مجموعی بدترین گورننس کے باوجود بے حساب کرپشن اور ہر طرح کی دھماچوکڑی کا الزام لگا کر نہ کسی باوردی نجات دہندہ نے آئین کی بساط لپیٹی نہ کوئی صدر 58(2)b کی تلوار سے لیس رہا جو قلم کی ایک جنبش سے ہی پوری حکومت اکھاڑ سکتا۔ وزیراعظم گلے میں تعویذ کی طرح طاقتور صدرمملکت کے ساتھ رہا اور صدر آصف علی زرداری کا سایہ عافیت وزیر گیلانی پر پڑا رہا، جو بڑی آسانی سے اقتدار کی باری مکمل کرتے معلوم دے رہے تھے۔ آئین کی کتنی ہی خلاف ورزیاں کرتی اس حکومت کی عوام سے مکمل لاپروائی اور ان کے مفادات کو اپنی چمک میں تبدیل کردینے کے باوجود راولپنڈی کے روایتی نجات دہندگان نے اور عوام نے بھی جیسے، اسٹیٹس کو کے اس بیانیے ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘ کو تسلیم ہی نہ کرلیا، ایمان بنا لیا۔ پوری قوم نے تمام تر تکالیف کے باوجود صبر جمیل کا وہ مظاہرہ کیا کہ کیا کوئی ولی کرے۔ سچ تو یہ ہی ہے کہ کیا فوج، کیا عوام اور کیا اپوزیشن کا، سب ہی نے عزم باندھا کہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہونے دی جائے۔ آئین کا نفاذ ادھورا ہی سہی، ہرحال میں اس کا تحفظ کیا جائے اور پی پی کی اقتدار کی جاری باری کو مکمل ہونے دیا جائے۔ سب سے بڑھ کر بدترین حکمرانی بھی اپوزیشن فرینڈلی بن گئی اور فوج تابع۔ ہاں نظام بد کی مزید پرورش کے سازگار حالات کے متوازی بدترین حکمرانی کے متوازی آزاد سپریم کورٹ کا جوڈیشل ایکٹیوازم، قومی کاوشوں سے حاصل آزادی صحافت اور تبدیلی کا زوردار نعرہ بلند کرنے والی خان اعظم کی جماعت کی صورت میں ایک ایسا ’’عذاب الٰہی‘‘ ضرور موجود رہا، جو ’’جمہوریت‘‘ کو جاری رکھنے پر چوکس تو تھا، لیکن ابھی نازل نہیں ہو رہا تھا۔ یوسف رضا گیلانی پھولے نہ سماتے تھے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں اقتدار کی مدت پوری کرنے والے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔ وہ نہ سمجھ پائے کہ اتنی تبدیلی برپا ہوگئی ہے کہ مرضی کی حکومت کے بظاہر سازگار حالات کے متوازی جو جمہوری او ر آئینی چیک اینڈ بیلنس کے خطرات موجود ہیں، وہ انہیں کلی طور پر مرضی کی حکومت نہ کرنے دیں گے۔ مزاحمت کی تو وہ اپنے اقتدار کی جاری باری پوری نہ کرپائیں گے۔ یہ ہی ہوا، وہ عدلیہ کے احکامات کے مقابل اپنی مرضی کرتے اقتدار سے توگئے، لیکن پی پی کا اقتدارگیا، آئین لپٹانہ جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔ یوں عمودی سطح کا ناممکن احتساب بھی ممکن ہوا۔ اسٹیٹس کو کے رنگ میں رنگے پیپلزپارٹی اور سزایافتہ وزیراعظم دونوں کو داد دینا پڑے گی کہ انہو ںنے پوری فراخدلی اور جمہوری جذبے سے عدلیہ کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کیا۔ اس کے علاوہ بدترین جمہوریت کے ’’مزے اڑانے‘‘ اور انتظامی و سیاسی دھماچوکڑی کے ساتھ ساتھ پی پی حکومت نے 18ویں اور 19ویں ترمیم کاکفارہ بھی ادا کیا جو اکثریت سے مسلط نہیں بلکہ آئین سازی کی ’’بھٹو اپروچ‘‘ اختیار کرکےاسے متفقہ بنانے کے لئے پاٹیسپٹری اپروچ ہی اختیار کی جس میں آئین کے آرٹیکلز 62اور 63کی حقیقت و ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے محفوظ کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہےکہ وزیراعظم گیلانی کے احتساب کے بعدآنے والے کسی اور وزیراعظم جس پر صادق اور امین نہ ہونے کا الزام عائد کیاجائے، کے احتساب کا دروازہ کھل سکا، جو خیر سے آج بھی کھلا ہے۔ یاد رہے ہمارے آئین کے یہ آرٹیکلز اپنی روح کے ساتھ دنیا بھر کی حقیقی جمہوریتوں کے آئین میں موجود ہیں، کہیں امپیچ منٹ کے نام سے اور کہیں اور کسی نام سے، ہم نے اسے اپنی اسلامی جمہوری حیثیت اور قیام ریاست کے مقاصد کے مطابق صادق اور امین کا نام دیاہے۔ بلاشبہ اسی نے وزیراعظم گیلانی کے احتساب سے شروع ہونے والے حکمرانوں کے مطلوب احتساب کی راہ ہموار کردی۔
اتنی خیر ہوئی تو اس کی برکت سے احتساب کے جاری رہنے کی ممکنات بڑھتی گئیں۔ عدلیہ کے اعتماد اور آزادی، میڈیا کے عوامی، قومی اور جمہوری مزاج کے بھرپور ایجنڈے اور عسکری قوتوں کے اپنے آئینی فریم میں رہ کر فرائض کی ادائیگی میں نتیجہ خیز برکات کا نزول جاری ہے۔ سی پیک، دشمن کی پاکستان کو تنہا کرنے میں ذلت آمیز سفارتی شکست، آپریشن راہ راست، ضرب عضب اور ردالفساد کی کامرانیوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت، سیاست اور گورننس کی شفافیت کے لئے پاناما کا نزول، یہ سب کچھ کیا ہے؟
شکر الحمد للہ! آج پاکستان میں عدلیہ مظلوم عوام کے ہی برسوں سے جاری افقی سطح (ڈائون ٹو ڈائون) یعنی عوام ہی کے احتساب کے مقابل بڑے بڑوں کے عمودی سطح کے محاسبے (ٹاپ ٹو ڈائون) کی مکمل اہل ہوتی ہوئی، پوری آزادی اورقوم کا اعتماد لئے فراہمی انصاف جیسے اپنے عظیم، مقدس اور حساس فریضے کی ادائیگی میں پریشر فری عدلیہ پورے انہماک سے مصروف عمل ہے۔ پاناما کیس کے عبوری فیصلے مزید تفتیش کے لئے اہل اور فعال جے آئی ٹی کا قیام ، سپریم کورٹ کی قابل اطمینان بخش مانیٹرنگ اور اب تک کی عدالتی کارروائی پر مدعی اور ملزم دونوں پارٹیوں کےمنہ گھی شکر سے بھرنا، سپریم کورٹ پر ان کے کامل اعتمادکا واضح پیغام ہے، جو اپنی جگہ ہر دو کے لئے قابل تعریف ہے۔ سیاسی ابلاغ کے اشاروں کنایوں میں تنقید کے تیر چلانا یا اپنی طاقت کا زعم، اسٹیٹس کو کی سیاست کا لازمہ ہے، اسے یہی سمجھ کر اہمیت ہی نہیں دینی چاہئے، حقیقت وہی ہے جو کچھ عدلیہ، آئین و قانون کی تشریح کرتے عدلیہ کر رہی ہے اور جو عوام کو ایٹ لارج قبول ہی نہیں، بلکہ وہ پورے انہماک، اعتماد اور صبر و تحمل سے، پاکستان کے آنے والے اچھے دنوں کےمنتظرہیں۔
سو، یہ باطل ہے کہ پاکستان میں سب کچھ نظام بد ہی ہے۔ اس کی طاقت اپنی، اس کے غلبے اور متاثرین کی حالت زار بھی ایک شرمناک حقیقت ہی ہے، لیکن اسے اکھاڑ پھینکنے کی محدود لیکن مسلسل جدوجہد، اسے للکارنےکی ہمت و جرأت، اس پر قدرت کی تائید و حمایت اور اس کے حیران کن نتائج آج پاکستان پر مسلط اسٹیٹس کو کے متوازی اتنی ہی بڑی زندہ حقیقت ہے۔
قیام پاکستان اور حفاظت پاکستان کے لاکھوں شہدا کے بعد پاکستان کے چپے چپے پر دہشت گردی کے حملوں سے اتنے ہی معصوم اور بے گناہ شہریوں کی شہادت اور وہ جو کروڑوں پاکستانی بچے اور بڑے نظام بد کی طاقت پکڑنے پر مطلوب خوراک، پانی، صحت اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے صرف اور صرف مظلوم اور بے بس و بے کس بنا دیئے گئے کی قربانیاں اور محرومیاں رنگ لانے کو ہیں، پاکستان کی حکمرانی میں صداقت اور امانت غلبہ پا کر رہے گی، ملوکیت کے مقابل حقیقی جمہوریت اورکرپشن کے شفافیت، کنبہ پروری کے مقابل میرٹ ہی جگہ بناتی جائے گی۔ آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ ہو کر رہے گا اور خاندانوں کے مقابل خلق خدا کا راج ہی پاکستان کا مستقبل، جو قریب ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔



.
تازہ ترین