• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ادارے مضبوط ہورہے ہیں۔ جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے ٹھہراؤ آتا جارہا ہے۔سول عسکری قیادت کے درمیان بعض معاملات پر اختلافات ضرور ہیں مگر کوئی بھی ادارہ سسٹم کو ڈی ریل کرنے کا حامی نہیں ۔نیوز لیکس کے حوالے سے جاری ہونے والے ٹوئٹس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کی مگر حالات سنبھل چکے ہیں۔یہ جمہوریت کا حسن ہی ہے کہ آج اختلاف رائے پر سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے۔ماضی میں معمولی اختلافات پر منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا گیا ۔لیکن میں ٹوئٹس معاملے کے بعد مطمئن ہوں کہ اب ہمارے اداروں میں اتنی پختگی ضرور آرہی ہے کہ کسی کی خواہش حکومت وقت کی رخصتی نہیں ہوسکتی۔چیف ایگزیکٹو کے نوٹیفکیشن کے بعد جیسا ردعمل آیا ،وہ بھی مناسب طریقہ کار نہیں تھا۔چوہدری نثار علی خان درست فرماتے ہیں کہ ادارے ٹوئٹس کے ذریعے ایکدوسرے سے مخاطب نہیں ہوتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے اقدامات جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہوتے ہیں۔لیکن آہستہ آہستہ اداروں کو اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہوجائے گا اور امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ایسے ٹوئٹس دوبارہ نہیں ہونگے۔
اگر حالیہ ٹوئٹس کی بات کی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے بعد یہ کچھ ہوا ہے۔غور طلب معاملہ یہ ہے کہ ایسے حساس نوٹیفکیشن کو لیک کس نے کیا ۔کیونکہ وزیراعظم کے سیکرٹری کے دستخط ہونے کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی وزارت داخلہ پہنچنے سے پہلے تمام موبائل فونزکی واٹس ایپ اسکرین پر نمودار ہوچکی تھی۔جس کے بعد یہ ساری صورتحال پیدا ہوئی۔بہتر ہوتا کہ وزیراعظم ہاؤس کے نوٹیفکیشن کے بعد جو تحفظات تھے اسے ایک خط کی صورت میں وزارت دفاع کو بھی بھیجا جاسکتاتھا۔لیکن وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کو براہ راست مسترد کرنا کسی بھی طرح سے مضبوط پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔اس سے بین الاقوامی تاثر بہت متاثر ہوتا ہے۔لیکن ہر غلطی کے بعد ہی بہتری آتی ہے۔خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو ٹوئٹس کے بعد تمام ساتھیوں نے حکمت اور افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیا۔رائیونڈ میں ہونے والی بیٹھک کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔اس سارے معاملے میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چوہدری نثار اور اسحاق ڈار نے بھی دونوں طرف برف پگھلائی ہے۔لیکن اس ساری صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ ایسی کونسی بات تھی جس نے ایک ادارے کو مجبور کیا کہ وہ وزیراعظم کا نوٹیفکیشن ہی مسترد کردے ۔دراصل نیوز لیکس کی رپورٹ تیار ہونے کے بعد تین افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔پرویز رشید کو پہلے ہی وزارت سے ہٹا دیا گیا تھا،باقی معاملہ طارق فاطی اور سول افسر راؤتحسین علی خان کا تھا۔میری اطلاعات کے مطابق پرویز رشید نے وزیراعظم نوازشریف کو کہا تھا کہ نیوز لیکس کی رپورٹ میں اگر صرف خبر نہ رکوانے کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا گیا تو ٹھیک ہے۔لیکن اگر ان پر قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا گیا تو وہ بہت سخت انداز میں ا س پر ردعمل دیں گے۔پرویز رشید کا موقف تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں غداری کا سرٹیفکیٹ لے کر ملک سے چلا جاؤں۔جبکہ طارق فاطمی نے بھی اس معاملے پر اپنی وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیوز لیکس کے معاملے میں تو کوئی ایسی صیغہ راز کی بات نہیں تھی بلکہ وہ تو ایسے ایسے رازوں کے امین ہیں جس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔اس لئے اگر ان پر بھی ایسا الزام عائد کیا گیا تو یہ ان کے فارن سروس اور پھر سیاسی کیرئیر پر بڑا داغ ہوگا۔سارے معاملے میں بغیر کسی وجہ کے پسنے والے راؤ تحسین پورے عرصے میں خاموش رہے ۔اب جب رپورٹ فائنل ہونے کے بعد وزیراعظم ہاؤس نے نوٹیفکیشن جاری کیا تو راولپنڈی کی رائے تھی کہ الفاظ کا ہیر پھیر کرکے معاملے کو حکمت سے حل نہ کیا جائے بلکہ تمام ذمہ داران کے کردار اور اس حوالے سے سخت الفاظ پر مشتمل نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔کیونکہ دوسری طرف کے چند لوگوں کی رائے یہ بھی رہی ہے کہ جیسے سابق آمر پرویز مشرف پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلایا گیا ہے۔ان وزراپر بھی اسی کے تحت کارروائی کی جائے۔پرویز رشید آرٹیکل 6کے ملزم کے حوالے سے سخت موقف اپناتے رہے تھے۔اس لئے حالیہ معاملے میں اس کا جواب دینے کے بھی مشورے دئیے جاتے رہے۔جبکہ اسی معاملے سے جڑا ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ اس خبر کے پیچھے ان تین افراد کے علاوہ بھی کوئی اور ہے۔آغاز میں کوشش کی گئی کہ جب انکوائری کمیٹی تحقیقات کرے گی اور دائیں بائیں سے غداری کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بات کی جائے گی تو شایدیہی تین افراد کسی اور کا بھی نام لے دیں۔مگر یہ سب منصوبہ بندی اس وقت خام خیالی ثابت ہوئی جب تین افراد نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔شاید کچھ لوگ بھول چکے ہیں کہ پرویز رشید جیسے قابل اعتماد اور جمہوریت کے حامی لوگوں نے تو اس وقت بھی نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف زبان نہیں کھولی جب ساری ساری رات ٹارچر سیل میں اذیتیں دی جاتی تھیں۔بہرحال پہلے مرحلے کے بعد کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ ان تینوں افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کرکے معاملہ اپنی مرضی سے چلایا جائے اور نیوز لیکس کے ملزمان غداری کے الزام کے تحت ٹرائل کا سامنا کریں۔جب ان تمام مقاصد میں ناکامی ہوئی تو پھر سول اورعسکری قیادت کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
آرمی چیف کا ساری صورتحال میں کردار مثبت رہا ہے۔مگر ہر جگہ کچھ ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں جو بہتری نہیں دیکھنا چاہتے۔آج راولپنڈی اور اسلام آباد کو اس معاملے کو بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا۔نیوز لیکس کے حوالے سے ٹوئٹس ناقابل قبول ہی ہیں ۔وزیراعظم نوازشریف کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اداروں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئےاور اس باب کو بند کرکے ماضی میں پھینک دینا چاہئے۔آج ہم ایسی نہج پر کھڑے ہیں کہ کسی بھی طرح سے ذاتی لڑائی جھگڑے اور انا کی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔مشرقی بارڈر کے بعد مغربی بارڈر پر جو کچھ کیا گیا ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔افغان بھائیوں سے ایسی امید نہیں تھی۔لیکن ان سب مسائل کا سامنا کرنے سے قبل سول اور عسکری قیادت کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا اور مضبو ط پاکستان کی طرف قدم بڑھانا ہونگے ،جو ٹوئٹس سے نہیں بلکہ منتخب وزیراعظم کے پیچھے کھڑے ہونے سے ہی ممکن ہے۔



.
تازہ ترین