• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان کی صورتحال دن بہ دن پیچیدہ ہوتی جارہی ہے، دل ہلا دینے والے واقعات رونما ہورہے ہیں 120 افغان فوجیوں کی ہلاکت اور پھر کئی چھوٹے خودکش حملے امریکی اور بھار تی جو بڑی تعداد میں افغانستان میں موجود ہیں خدشات کا شکار ہیں اور اپنے شہریوں اور اہلکاروں کی حفاظت کے لئے فکرمند ہیں۔ چنانچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اب سنجیدگی کی طرف مائل ہوئے ہیں، نے پاکستان کے سفیر سے سفارتی دستاویزات قبول کرنے کے بعد گفتگو کی اور شاید ان کو دہشت گردی کے خلاف مل کر جنگ لڑنے کا عندیہ بھی دیا کیونکہ وہ طالبان کے موسم گرما کے حملوں سے پریشان ہیں۔ امریکہ نے جو ایٹم بم سے کم مگر سب سے بڑا بم افغان پہاڑی سلسلے پر گرایا جہاں بقول اُن کے داعش کے اڈے تھے وہاں سے تحریک طالبان پاکستان کے کئی رہنما اور 15 بھارتیوں کی لاشیں بھی ملی ہیں، اس کے علاوہ ایک ڈرون حملے میں جو پاکستان کی سرحد کے اندر کیا گیا وہاں بھی تحریک طالبان پاکستان کے کئی کمانڈرز مارے گئے، دونوں صورتوں میں امریکہ کو سراہا نہیں جاسکتا کیونکہ افغانستان میں امریکہ اپنا ہر ہتھیار آزما رہا ہے، پہلے ڈیزی کٹر کا استعمال کیا اور اب اس نےاس سے دگنی طاقت کا بم استعمال کیا، جو پاکستان کو خوفزدہ کرنے کیلئے بھی ہوسکتا ہے جبکہ اسی روز طالبان، پاکستان، روس اور چین کے درمیان ماسکو میں جو مذاکرات ہورہے تھے اس سلسلے میں یہ پیغام دینے کیلئے کہ وہی اصل طاقت یا اس اجلاس کو سبوتاژ یا کم از کم اُس کی اہمیت کو کم کرنے میں ضرور کام آیا۔ ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ تھا اس لئے وہ بھی قبول نہیں۔ تاہم پاکستان کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے افغانستان کادورہ کیا اُن سے تعزیت کی اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔جبکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ایک پارلیمانی وفد نے دورہ کیا اور پھر 2مئی 2017ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نےدورہ کیا، جو اِس لحاظ سے اہم تھا کہ ایک عرصے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطہ ہوا۔ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے افغانستان کے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، مشیر سلامتی امور اور افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس چیف سے ملاقاتیں کیں جن میں اُن لوگوں کی فہرستوں کو تبادلہ کیا گیا جن کی دونوں کو ضرورت ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کے بعد جو بیان دیا وہ ہوشربا تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ خالد خراسانی پاکستان کے اس قدر خلاف ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اسرائیل سے بھی مدد لینے کو تیار ہے، پھر سارے جرائم کا اعتراف کیا جو تحریک طالبان پاکستان اور مخالف سرگرم گروپوں کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا اور اس کی تشہیر اس لئے بھی ضروری تھی کہ سب کے علم میں آجائے کہ تحریک طالبان پاکستان کو افغان انٹیلی جنس کی حمایت حاصل ہے اور یہ کہ وہ افغان انٹیلی جنس کی مدد سے پاکستان میں وارداتیں کرتی ہے۔ اس لئے ان دوروں سے افغانستان کو وارننگ بھی دینا تھی اور اُن کو سمجھانا بھی مقصود تھا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کام نہیں کریں گے۔ جنرل بلال اکبر نے وہاں ایک معاہدہ بھی کیا کہ پاکستان اور افغانستان مل کر مشترکہ حکمت عملی وضع کریں گے تاکہ دہشت گردوںکو شکست دی جاسکے۔ جنرل بلال اکبر نے افغان وزیر دفاع اور آرمی چیف سے بھی ملاقات کی اور اُن کے علم میں لائے کہ انہوں نے افغان سرحد سے ملحق سارے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے اور پاکستان کی طرف سے افغانستان میں مداخلت کو انتہائی کم سطح پر لے آئے ہیں۔جنرل نوید مختار نے جہاں مطلوب افراد کی فہرست افغانستان کے حوالے کی تو وہاں جوابی فہرست بھی وصول کی۔ اس کے علاوہ وہ پاک افغان سرحد کے انتظامات کے سلسلے میں افغان حکومت کی مدد کے طلب گار ہوئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے دورئہ پاکستان کی دعوت کو مسترد کردیا اور پھر 5مئی 2017کو چمن کی سرحد کے قریب افغان فوجیوں نے پاکستان کی مردم شماری کرنے والے فوجی و ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کردیا جس میں 8پاکستانی شہید اور 31زخمی ہوچکے ہیں جس کے بعد پاکستان نے چمن سرحد بند کردی ہے۔ نتیجہ نہ حکومت افغانستان کے حق میں جائے گا اور نہ امریکی مفاد میں۔ اب طالبان کو پکڑ کر ہم اُن کو دینے سے تو رہے کیونکہ نہ تو ہماری اُن پر دسترس ہے اور نہ ہی ہماری استطاعت ہے۔ افغانستان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کو زیر کرے، اُسے بہرحال پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان اُس کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اگر وہ چاہے مگر وہ آزاد نہیں امریکہ اور بھارت کی گرفت افغان حکومت پر اتنی سخت ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات نارمل نہیں ہونے دیتے۔ بھارت نے کشمیریوں کا جینا مزید مشکل کردیا ہے۔ سینکڑوں دیہات کا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کیا ہواہے اور پاکستان فوج کو الجھایا ہوا ہےتاکہ وہ کسی اور طرف نہ دیکھ سکے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اکتوبر 2016ء میں برسلز میں اشرف غنی سے ملاقات کی تھی اور انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان میں امن پاکستان کے استحکام کیلئے بہت ضروری ہے، وہاں دونوں میں اتفاق ہوا کہ طویل المدتی امن قائم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ پاکستان نے اس موقع پر افغانستان کیلئے 500 ملین ڈالرز کی امداد کا اعلان بھی کیا تھا۔ 300 افغان طلبا کو وظائف دے کر پاکستان میں تعلیم دینے کی پیشکش کی۔ افغانستان اور حزب اسلامی کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر اُن کو مبارکباد دی اور اب اُس معاہدے پر عمل درآمد کیلئے تیاری ہورہی ہے، ہم اِس کو خوش آئند کہتے ہیں۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ افغان حکومت طالبان سے بھی مذاکرات کرکے افغانستان کو امن کا گہوارہ بنا ئے۔ اکتوبر 2016ء میں اشرف غنی نے طالبان کے مذاکرات سے انکار پر تشویش کا اظہار کیا تھا اب وہ راضی ہوگئے ہیں تو افغان حکومت اس سے صرفِ نظر کررہی ہیں۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہے پاکستان کا اس سلسلے میں کوئی پسندیدہ طالبان گروپ نہیں ہے۔ اس نے سب کے خلاف کارروائی کی ہے اور کئی کمانڈروں کو گرفتار کیا ہوا ہے۔ جس پر حقانی گروپ کافی ناراض ہے۔ افغان طالبان سربراہ کے مارے جانے پر بھی وہ خوش نہیں۔ تاہم افغانستان کو ایران کی طرح اپنے معاملات سلجھانا چاہئے کہ جھڑپوں کے بعد ایرانی حکام پاکستان آئے اور پاکستان اور ایران کی سرحدی سیکورٹی بڑھانے پر اتفاق کر گئے۔ پاکستان ایران سرحد پر سیکورٹی بڑھا دی گئی۔ اس کے برعکس افغانستان دشمنوں جیسا رویہ اختیار کرتا ہے اور کسی صورت پاکستان کے ساتھ تعاون پر فی الحال دستیاب نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کامیابی ضرب المثل بن گئی ہے اور پاکستان اپنے تجربے کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے اگر کوئی اس کو قبول کرے۔دوسری صورت میں پاک افغان کشیدگی بڑھے گی اور افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات بھی بڑھیں گے۔



.
تازہ ترین