• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس مرتبہ اپنی مخالفانہ سیاست کا ہدف ایک نہیں بلکہ دو سیاسی جماعتوں کو بنایا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کیساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی اپنا بڑا حریف تصور کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے جیالے ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعرے بھی لگا رہے ہیں اور ’’ گو عمران گو ‘‘ کی گونج بھی پیپلز پارٹی کے اجتماعات کا خاصا بن گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور ایک ہی وقت میں دونوں کیخلاف سیاسی مہم چلا رہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کیفیتی ( Qualitative ) تبدیلی رونما ہو چکی ہے ۔
پہلے اس ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں دو جماعتی نظام رائج ہو چکا ہے ۔ حالانکہ بعض مغربی ممالک کی طرح یہاں دو جماعتی نظام نہیں تھا ۔ دیگر وفاق پرست ، مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی تھیں ۔ وہ ووٹ بھی حاصل کرتی تھیں اور حکومتوں کی تشکیل میں کبھی کبھی چھوٹی جماعتیں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر لیتی تھیں لیکن کہا یہی جاتا تھا کہ ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں لیکن اب یہ بات نہیں کہی جا سکتی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک کی بجائے دو سیاسی جماعتوں کے خلاف مہم چلا کر پاکستان میں اس سیاسی عہد کا خاتمہ کر دیا ہے جسے دو جماعتی نظام کے عہد سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے ۔ اگرچہ یہ کیفیتی تبدیلی بہت پہلے سے رونما ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن 2013کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کم از کم اسے اس طرح تسلیم نہیں کیا تھا ، جس طرح وہ اب اس کا اظہار کرر ہی ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت ذہنی طور پر تیار تھی کہ اسے مرکز میں دوسری بار حکومت بنانے کا موقع نہیں ملے گا یا موقع نہیں دیا جائیگا ۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کو ایک تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر نہیں لے رہی تھی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت تحریک انصاف کو ایک ’’ پریشر گروپ ‘‘ کے طور پر لے رہی تھی ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکمت عملی یہ تھی کہ تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرے اور ان دونوں صوبوں میں ووٹ تقسیم ہونے سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو لیکن تحریک انصاف ووٹوں کے تناسب سے پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی ۔ 2013 کے عام انتخابات کے نتائج نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو وہ حقیقت باور کرا دی ، جس کا اظہار پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی سے ہو رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) 2013 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف کو سب سے بڑا چیلنج تصور کر رہی تھی اور ملک میں پیپلز پارٹی سے پہلے ہی تین جماعتی نظام کو قبول کر چکی تھی لیکن عام پاکستانی کی نظر میں یہ تین جماعتی نظام نہیں تھا کیونکہ 1970 کی دہائی کے بعد پاکستان میں سیاسی صف بندی کو لوگ صرف پیپلز پارٹی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ ایک طرف پیپلز پارٹی ہوتی ہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی مخالف کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے یا کوئی سیاسی اتحاد ہوتا ہے ۔ لوگ یہی تصور کر رہے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف دونوں پیپلز پارٹی مخالف صف میں شامل ہیں ۔ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی کی مخالف صف میں اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی والی ایک بڑی سیاسی جماعت رہی ہے ۔ خصوصاً مسلم لیگ (ج) ، (ق) ، ( ن ) وغیر یا کوئی سیاسی اتحاد رہا ہے۔ چھوٹی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو بھی پیپلز پارٹی مخالف صف میں شامل کیا جاتا رہا ہے ۔ اسلئے ہی کہا گیا کہ پاکستان میں ’’ دو جماعتی ‘‘ سیاسی نظام ہے اور دو جماعتوں کے درمیان ’’ میوزیکل چیئر ‘‘ کا کھیل جاری ہے ۔ پیپلز پارٹی نے بھی ہمیشہ اپنی مخالف ایک سیاسی جماعت کے ساتھ دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کو ’’ بریکٹ‘‘ کیا ہے اور انہیں کبھی بھی تیسری سیاسی قوت تسلیم نہیں کیا ہے ۔ 1967 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک کی بجائے دو سیاسی جماعتوں کیخلاف ایک ساتھ مہم چلا رہی ہے ۔ پہلے کبھی اس نے اپنی مخالف ایک سیاسی جماعت اور اس کی اتحادی دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک ساتھ مہم نہیں چلائی ہے ۔ یہ 1967 کے بعد پاکستان کی سیاست میں کیفیتی تبدیلی ہے ۔
اگر پاکستان کی سیاسی طبعیات( Political Physics ) کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو صورت حال ماضی سے مختلف نہیں ہے ۔ ایک طرف پیپلز پارٹی ہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی مخالف سیاسی قوتیں ہیں۔ 2013میں پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں پیپلز پارٹی مخالف صف میں شامل ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک سیاسی جماعت ہی میدان میں رہے گی ۔ یہ اجتماعی فہم غلط نہیں تھی بلکہ تاریخی مادیت اور جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ تھی ۔ یہ کریڈٹ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی پرو اسٹیبلشمنٹ ( Pro- Establishment ) سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں کی حمایت تحریک انصاف کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ایک سیاسی جماعت کے طور پر قائم رکھا اور عوامی حلقوں میں اپنی حمایت حاصل کی ۔ میاں محمد نواز شریف ایک غیر معمولی انسان ہیں ، جن کا مقصد اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست تو نہیں ہے لیکن وہ پاکستان جیسے ملک کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ، جو مافیاز اور امر شاہی یا چند سری حکومتوں ’’ Oligarchies ‘‘ کے کنٹرول میں ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پاکستان پر اثر انداز ہونیوالی عالمی طاقتوں ، لابیز (Lovvies)اور بین الاقوامی ایجنسیز کی کیمسٹری کا ادراک رکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے نے عمران خان کو سیاسی طور پر پنپنے کا پورا موقع فراہم کیا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کو جبری جلا وطنی پر مجبور کیا گیا ۔ القاعدہ ، طالبان اور دیگر لسانی اور نسل پرست انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں نے کوئی سیاسی اور جمہوری تحریک بننے نہیں دی۔ اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی ہو گئی بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے پیپلز پارٹی اپنی بقااور جلا کی جنگ میں فتح یاب ہوئی لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف عدالت سے سزا پانے کے باوجود نہ صرف خود سیاسی طور پر زندہ رہے بلکہ انہوں نے سخت مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو ووٹوں کے تناسب سے 2013 میں ملک کی نمبر ون سیاسی جماعت بنا دیا ۔ یہ اور بات ہے کہ پیپلز پارٹی مخالف صف میں تحریک انصاف دوسرے نمبر کی سیاسی جماعت بن کر ابھری ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں دوسری صف میں پہلی مرتبہ دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ۔ ان میں سے کون سی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہو گی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں مافیاز اور امر شاہی کی حکمرانی کا ادراک کرنیوالے اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف کی غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجود عمران خان کا یہ نعرہ زیادہ مقبول ہے کہ سیاست میں کرپشن نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر سیاست میں کرپشن نہ ہوتی تو پاکستان پیپلز پارٹی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہوتی اور ملک میں دو جماعتی نظام کی بجائے اشتراکی ملکوں کی طرح ایک جماعتی نظام ہوتا ۔ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان سیاست میں اس قدر موثر نہ ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں آصف علی زرداری کا سب سے بڑا سیاسی حریف عمران خان ہونگے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمران خان ہی آئندہ حکومت بنائیں گے ۔

.
تازہ ترین