• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی تھنک ٹینک کے بقول ’’آنے والے وقت میں کسی ملک کے مستقبل کا دارومدار فوجی طاقت سے نہیں بلکہ اس کی مضبوط معیشت سے ہوگا۔‘‘ اسی حوالے سے امریکن یونیورسٹی UCLA کے رچرڈ روزی کرینز نے اپنی کتاب ’’دی رائز آف ٹریڈنگ اسٹیٹ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’دنیا اقتصادی لحاظ سے آزاد ہورہی ہے اور عالمی قوت بننے کیلئے اب فوجی طاقت نہیں بلکہ تجارت میں برتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ویت نام جس نے برطانیہ، فرانس اور امریکہ سے 30سال تک جنگ لڑی مگر آج وہ معاشی طور پر کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ مضبوط ہے جس کی ایکسپورٹ 350ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔‘‘
گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان کی معیشت میں یقینا بہتری آئی ہے لیکن ہماری معیشت اب بھی قرضوں اور خساروں پر چل رہی ہے، ملک میں 40 لاکھ سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں اور ہر سال ان بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں 15لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔ ملکی معاشی اشاروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے محتاط انداز میں پاکستانی معیشت کا جائزہ لیتے ہوئے معاشی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ بعض چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے معاشی اصلاحات پر عملدرآمد، بیرونی قرضوں میں توازن پر زور، تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح ملکی قرضوں، امپورٹس میں اضافے اور ایکسپورٹس اور ترسیلات زر میں کمی پر بھی آئی ایم ایف نے اپنے خدشات ظاہر کئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے جائزے کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی 5فیصد تک پہنچ جائے گی لیکن ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دیئے بغیر ریونیو وصول کرنے سے متوازی معیشت یا بلیک اکانومی فروغ پارہی ہے۔ پاکستان کا ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب خطے میں سب سے کم ہے جس کو 16سے 18فیصد تک لے جانا ہوگا۔ حکومت نے پاکستانی روپے کی قدر کو کنٹرول کیا ہوا ہے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی سے تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا اور بیٹھے بٹھائے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوجائے گا جبکہ ایکسپورٹرز روپے کی موجودہ قدر کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں تاکہ برآمدات میں اضافہ ہوسکے۔ حکومت نے بجٹ خسارے کو کم دکھانے کیلئے ایکسپورٹرز کے 200ارب روپے سے زیادہ سیلز ٹیکس ریفنڈ گزشتہ دو سال سے روکے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کا کیش فلو بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ریفنڈ نہ ملنے کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو بینکوں سے مزید قرضے اضافی مالی لاگت پر لینے پڑرہے ہیں جو ان کی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث ہے، ریفنڈ نہ ملنے کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو اپنی صنعتی سرگرمیوں کو سکیڑنا پڑا ہے جو ملکی ایکسپورٹس میں کمی کا باعث بنا ہے۔ وزارت خزانہ اپنے ریونیو ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے ایکسپورٹرز پر ہر طرح کا دبائو ڈال رہے ہیں جس کے باعث بزنس مینوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخ خطے میں مقابلاتی حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ملکی ایکسپورٹس پر 4سے 5فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی لاگو ہیں جو ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے اس سال اسلام آباد میں نجی شعبے کے ممتاز صنعتکاروں سے ایک ملاقات جس میں، میں بھی شریک تھا، 2018سے سی پیک کی مد میں زرمبادلہ کے ان فلو کے مقابلے میں اضافی آئوٹ فلو پر تشویش ظاہر کی تھی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے صدر زبیر طفیل، ٹی ڈیپ کے سابق چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر، افتخار علی ملک اور دیگر کے ساتھ میں نے گزشتہ دنوں پنجاب کے شہروں چکوال، ملتان اور فیصل آباد کے چیمبرز کا دورہ کیا جہاں کی بزنس کمیونٹی ، ایف بی آر کے جارحانہ رویئے سے سخت نالاں نظر آئی۔ ملک میں بے شمار ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں اور بینکوں کا تقریباً 25 فیصد ٹیکسٹائل کے قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم نے ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے رواں سال جنوری میں 180 ارب روپے کا ایکسپورٹ ریبیٹ پیکج دیا تھا جس میں تقریباً80 ارب روپے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کیلئے مختص کئے تھے لیکن پیکج پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ ملکی ایکسپورٹس جی ڈی پی کا کم از کم 40 فیصد ہونا چاہئے اور اس لحاظ سے پاکستان کی ایکسپورٹس 120 ارب ڈالر سالانہ ہونی چاہئے جبکہ ہماری ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 20 ارب ڈالر پر آگئی ہیں۔
آئی ایم ایف نے 2018میں گلوبل معاشی گروتھ 3.5 سے 3.6جبکہ پاکستان کی 2017-18میں معاشی گروتھ 5.2فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناظر میں مڈل ایسٹ اور سعودی عرب میں 2017 میں سست معاشی گروتھ 4 فیصد اور 2018میں 4.4 فیصد کا عندیہ دیا ہے۔ آئی ایم نے یورپ میں مندی کے مدنظر 2017 میں چین کی جی ڈی پی گروتھ 6.6فیصد اور بھارت کی سب سے زیادہ 7.2 فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے صنعتکاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع جمود کا شکار ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج جو اس سال 26 جنوری کو 50192 انڈیکس کی حد تک پہنچ چکا تھا، 126 دن سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کی وجہ سے گرکر 46050 کی سطح تک آگیا تھا جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے لیکن بالاخر پاناما کیس کے فیصلے کے دو دن بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج دوبارہ 49506کی سطح پر پہنچ گیا جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کیلئے پالیسیوں کا تسلسل اور سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو ایمرجنگ مارکیٹ (MSCI) انڈیکس میں دوبارہ شامل کرلیا گیا ہے اور رواں ماہ سے MSCI کے فنڈ منیجرز پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی منتخب کمپنیوں میں قابل قدر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج مزید بلندیوں کی طرف پہنچے گا۔ حالیہ نیوز لیکس اسکینڈل اور سپریم کورٹ کا فیصلہ جس میں جے آئی ٹی کو 60 دن میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے جس پر سپریم کورٹ حتمی فیصلہ سنائے گی، سے بھی ملک میں محاذ آرائی اور سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی جماعتیں جلسے جلوس اور احتجاج کررہی ہیں جس سے ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام متوقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سی پیک کی شکل میں ایک قیمتی تحفہ دیا ہے۔ سی پیک کے توانائی، انفرااسٹرکچر، گوادر پورٹ اور اسپیشل اکنامک زونز کے منصوبے ملک اور خطے کی قسمت بدل سکتے ہیں لیکن اِن منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے سرمایہ کاروں کو ملک میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی بہتر صورتحال فراہم کرنا ہوگا۔سیاسی جماعتوںسے درخواست ہے کہ وہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کی صورتحال سے دوچار کرنے سے گریز کریں تاکہ سی پیک کے ملکی ترقی کے اہم منصوبے جن پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں، متاثر نہ ہوں۔

.
تازہ ترین