• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتنی سادہ اورعام فہم بات پہلے ہی ارشاد فرما دی جاتی تو قوم کا ایک سال ضائع ہوتا اور نا ہی عدالت عظمیٰ کے فاضل جج 6 ماہ تک ہزاروں صفحات پر مبنی دستاویزات کی جانچ پڑتال پر عرق ریزی کرتے۔ بھانت بھانت کی بولیوں کے شور سے آلودگی پیدا ہوتی اور نا ہی وکلاکو فیسوں کی مدد میں کروڑوں روپے ادا کرنے کی فضول خرچی کی جاتی۔ میڈیا ہر روز سرکس سجاتا اور نا ہی عوام بیچارے ہسٹریا کا شکار ہوتے۔ پارلیمنٹ میں دھماچوکڑی مچتی اور نا ہی انتخابات سے ایک سال قبل جلسے جلوسوں کا ڈول ڈالنا پڑتا۔ چلیں دیر آید درست آید ۔ اس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک موقف آیا ہے جو عوام کے ساتھ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان کوبھی باور کرا دیا گیا ہے کہ پاناما پیپرز کوئی کرپشن کے بارے میں تھوڑی ہیں یہ تو کوڑا ہیں جسے دنیا ردی کی ٹوکری کی نذر بھی کر چکی، مزید یہ کہ پاناما کا سارا قضیہ جرمن اور پاکستانی صحافیوں کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ اورپاکستان کے خلاف ایک سازش تھی۔ جبکہ افسوس کا اظہار بھی کیا گیا کہ عمر چیمہ جیسے صحافی پاکستان کے خلاف سازش کا حصہ بنے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر چونکہ محدود الفاظ کی قدغن کے باعث اس سازش کا پردہ پوری طرح چاک نہیں ہو سکتا تھا اس لئے اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا گیا۔ اس تناظر میں قارئین کی یہ مشکل آسان کرنا ضروری ہوگیا ہےکہ پاناما پیپرز کے کوڑے کے ذریعے پاکستان کیخلاف اگر سازش کی جارہی ہے تو اس سازش کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں۔ اس سازش کا آغاز سال دو ہزار چودہ میں اس خفیہ پیغام کہ ہیلو میرا نام جان ڈو ہے،کیا آپ کو ڈیٹا حاصل کرنے میں دلچسپی ہے،کے ذریعے ہوا جو جرمنی کے سب سے بڑے اخبار سودیوچیزیتنگ سے منسلک صحافی بیسٹئین اوبرمئیرکو بھیجا گیا۔ بیسٹئین کی ہاں کے بعد پاناماکی لا فرم موساک فونسیکا کی خفیہ دستاویزات جو ملنا شروع ہوئیں تو اسکے ساتھی فریڈرک اوبرمئیر اور اخبار انتظامیہ کی نیندیں اڑ گئیں۔ایک کروڑ پندرہ لاکھ ڈیجیٹل فائلوں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی لیکس کی جانچ پڑتال کیلئے تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے سے رابطہ کیا گیا اور یوں دنیا کے 70 ممالک کے 100 صحافتی اداروں کے 370 سے زائد صحافیوں کے اشتراک سے پاناما پیپرز کا وہ اسکینڈل منظر عام پر آیا جس نے دنیا کے 80 ممالک میں جو زلزلہ برپا کیا اس کے آفٹر شاکس ایک سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہیں۔ پاناما پیپرز کی صورت میں پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں نے 200 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا راز فاش کرنے کیلئے دنیا بھر کے 2 لاکھ 14 ہزار افراد،کمپنیوں اور اداروں کے نام بھی شامل کر لئے،اتنی غیر معمولی احتیاط انہوں نے اس لئے برتی ہو گی کہ کسی کو شک نہ گزرے کہ یہ سارا کھیل پاکستان بلکہ یا کسی خاص خاندان کے خلاف رچایا گیا ہے لیکن بیچاروں کی ساری پھرتیاں دھری کی دھری رہ گئیں ،سازش کا نام تو پھر بھی دیا گیا ۔ ایک سمجھ نہ آئی تو بدیسی لوگوں کو جو سدا کے سادے ہیں۔ ابھی چند دن بھی نا گزرے تھے کہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمندرنے اس الزام پر استعفیٰ دیدیا کہ ان کی اہلیہ کے نام پر آف شور کمپنی ہے۔اسپین کے وزیر صنعت و توانائی اپنے ضمیر کے کچوکے برداشت نہ کرسکے اور گھر کی راہ لی، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنے والد کے کردہ گناہ کی پاداش میں سخت سبکی کا سامنا کرنا پڑا، آسٹریا کے سرکاری بنک کے سربراہ بھی پاناما کا بوجھ نہ سہار سکے،ہالینڈ کے تیسرے بڑے بینک کے اہم عہدیدارکو مستعفی ہونا پڑا،یوراگوئے کے وکیل اور فیفا کی اخلاقی کمیٹی کے رکن کو اخلاقیات نے عہدہ چھوڑنے پر مجبور کردیا،آرمینیا کا اہم عہدیدار دامن پر لگا داغ سہہ نہ پایا۔ پاناما کے چکر میں وینزویلا کے اٹارنی کو گرفتار کیا گیا،سابق صدر ہوگو شاویز کے محافظ کی والدہ اور بھائی کو جیل یاترا کرنا پڑی،میکسیکو کے بدنام اسمگلر کے بھائی کی آف شور کمپنیوں سے جڑے گیارہ افراد کوجیل جانا پڑا۔اسرائیل میں دو اعلیٰ عہدیدارحوالات میں بند ہوئے۔برطانیہ میں بنکوں کے تین اعلیٰ حکام دھر لئے گئے۔ اٹلی کے ارب پتی شہری کو یوکرائن سے حراست میں لے لیا گیا۔
مالٹا کے وزیر اعظم جوزف مسقط کو اس الزام پر ایک سال قبل ہی انتخابات کااعلان کرنا پڑا ہے کہ ان کی اہلیہ نے آزر بائیجان کے صدر کی بیٹی سے آف شور کمپنی کے ذریعے دس لاکھ ڈالر وصول کئے ہیں،انہیں فوجداری تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ ارجنٹائن کے صدر کے خلاف بھی تحقیقات جاری ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جسےپاکستان کے خلاف سازش قرار دیا جارہا ہے اس کے بعد دنیا کے اسی ممالک میں ساڑھے چھ ہزار ٹیکس دہندگان افراد اور کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات شروع کی جا چکی ہیں جبکہ ایک سو پچاس بڑے آڈٹ جاری ہیں۔ چار سو کمپنیوں کو 135 ارب ڈالر مالیت کے مساوی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مختلف ممالک میں 11 کروڑ ڈالراثاثوں کو منجمد کرکے یا ٹیکس کٹوتی کر کے اکٹھے کئے جاچکے ہیں۔ صرف بھارت میں 429افراد کیخلاف تحقیقات جاری ہیں اور اب تک 8ہزار 437کروڑ روپے کی رقم کو ٹیکس کے دائرے میں شامل کیا جا چکا ہے۔ مشرق وسطی، یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک میں سینکڑوں لوگوں کیخلاف فوجداری مقدمات قائم کر کے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کیخلاف سازش کرنیوالی پاناما کی لا فرم موساک فونسیکا کے دونوں شراکت دار مالکان اور دیگر دو اعلیٰ عہدے داران کو گرفتار کیا جا چکا ہے،ان کے اکاونٹس منجمدکر دئیے گئے ہیں جبکہ کمپنی کونو دفاتر بند کرنا پڑے ہیں حتیٰ کہ مرکزی دفتر کے باہر نصب سائن بورڈ تک ہٹا لئے گئے ہیں۔
پاناما کی اسی ردی کی وجہ سے افریقہ سے یورپ اور ایشیا سے لاطینی امریکہ تک متعدد ممالک کو آف شور کمپنیوں کے قیام اور ٹیکس سے متعلق قوانین تبدیل کرنے یا نئے سرے سے بنانے پڑے ہیں۔ جرمنی میں نئے قانون کا نام ہی پاناما قانون رکھا گیا ہے جس کے تحت آف شور کمپنیوں کو افشا کرنا لازمی قرار دےدیا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں بھی یہی قدغن عائد کی گئی ہے۔ نائیجیریا اور گھانا میں آف شور مالکان کی رجسٹریشن ہو گی۔ منگولیا میں سیاست دانوں اور سرکاری ملازمین کیلئے بے نامی کمپنیاں قائم کرناغیر قانونی قرار دیدیا گیا ہے۔ ایکواڈور میں بھی ایسا قانونی بل لایا جا رہا ہے،آسٹریلیا میں آف شور کمپنیوں کا رضا کارانہ اعلان جبکہ کینیڈا میں سخت ٹیکس پالیسی سامنے آ رہی ہے۔ آئر لینڈ میں نیا فوجداری قانون بنا دیا گیا ہے۔متعدد ممالک میں آف شور کمپنیوں کے حقیقی مالکان کے بارے میں معلومات تک رسائی کا قانون پبلک رجسٹری لاگو کیا جا رہا ہے،سویڈن میں آغاز بھی ہو چکا جبکہ برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی غور جاری ہے اور یورپی یونین کے ممالک پر رواں سال میں ہی پبلک رجسٹری قانون لاگو کرنے کا اعلان کیاجا چکا ہے۔یورپی یونین نے امریکہ اور سوئٹزرلینڈ سمیت بانوے ممالک کو خطوط تحریر کئے ہیں کہ وہ ٹیکس بچانے کیلئے جنت سمجھے جانے والے مقامات کو افشا کریں۔ اس سب ہلچل کے بعد پاناما کے اس کوڑے کو سامنے لانے والوں کو دنیا پولٹزر ایوارڈ سے نواز رہی ہے جبکہ ہم اسے سازش قرار دے رہے ہیں کیوں کہ ہمارا وہ حال ہے کہ ایک آدمی میلہ دیکھنے گیا،سارا دن پھرنے کے بعد تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا تو اونگھ آگئی،جب اٹھا تو کمبل غائب تھا۔ واپس پہنچا تو گھر والوں نے پوچھا میلہ کیسا رہا، کہنے لگا میلہ تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو سب لوگ میرا کمبل چرانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے۔

.
تازہ ترین