• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے ای او بی آئی پنشن کی ادائیگی کیلئے حکومت کو 11مئی تک آخری مہلت دی ہے۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن میں اربوں کی کرپشن کا کیس زیر سماعت ہے ۔ عدالت عظمیٰ کے ججزنے سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ اربوں کی چوری کی ذمہ دار حکومت ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2013 میں سپریم کو رٹ نے ایف آئی اے سربراہ کو ای او بی آئی کے حکام کی جانب سے سرمایہ کاری کے منصوبوں میں مبینہ طور پر 40ارب روپے کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا، تب سے یہ معاملہ معلق ہے۔ اسوقت ملک میں پاناما لیکس اور نیوز لیکس کے حوالے سے ایک حشر برپا ہے ، ایسے میں بوڑھے غریب مزدوروں کی پنشن کا مسئلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، سوائے اس کے کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کی خبر کو ایک دو کالمی جگہ مل جاتی ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ای او بی آئی کا ادارہ کن کے تحفظ کیلئے بنایا گیا اور انہیں تحفظ کیوں نہیں مل رہا ؟ پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اب تک چھ لیبر پالیسیاں آچکی ہیں ۔ 1972ء کی لیبر پالیسی ذوالفقار علی بھٹو کے دور ِحکومت میں آئی جس میں سب سے زیادہ مزدوروں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ،اسی پالیسی کی روشنی میں یکم اپریل 1976ء کو ای او بی آئی ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کروا کر نافذ کیا گیا تاکہ مزدور کو لازمی سوشل انشورنس فراہم کر کے آئین کے آرٹیکل 38سی کے مقاصد حاصل کئےجا سکیں ۔ وہ صنعتی اور کمرشل مزدور جو اپنے آپ کو اس محکمے میں رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ اُن کی تنخواہوں سے ایک فیصد ماہانہ کٹوتی ہوتی ہے جبکہ ایمپلائرز ہر ایسے ملازم کے حصے کا 5فیصد ای او بی آئی میں جمع کرواتا ہے اور حکومت بھی اسی کے برابر حصہ جمع کراتی ہے ۔ ایسے ملازمین جب ریٹائرہوتے ہیں یا اپنی ملازمت کے پندر ہ سال پورے کرتے ہیں تو انہیں پنشن دی جاتی ہے۔ اور وہ ملازمین جو دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد فوت ہو جائیں تو اُن کے پسماند گان کو یہ پنشن تاحیات ملتی رہتی ہے۔ ایسے ملازمین جو دوران ملازمت معذور ہو جائیں انہیں تاحیات معذوری الائونس دیا جاتا ہے۔ ای او بی آئی ایکٹ کے تحت حکومت کو بھی آدھا حصہ کنٹری بیوٹ کرنا تھا جو 1995تک کرتی رہی مگر اسکے بعد اس نے اپنا حصہ ڈالنا بند کر دیا ۔ اسوقت یہ ادارہ بغیر حکومتی امداد کے چل رہا ہے ۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسوقت اسکے تحت 71لاکھ 38ہزار سے زائد ملازمین رجسٹرڈ ہیں، اُن میں سے تین لاکھ 79ہزار ساڑھے تین سو اولڈ ایج کی مد میں پنشن لے رہے ہیں ۔ ایک لاکھ 78ہزار6سو 64پسماندگان جبکہ 9ہزار مستقل معذور ہیں—ای او بی آئی کے موجودہ اثاثہ جات تین سو ارب روپے سے زیادہ ہیں لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بیوروکریسی اور حکمراںغریب مزدوروں کی اس رقم میں کرپشن کر رہے ہیں،مہنگی ترین زمینیں خریدنے کے اسکینڈل سامنے آرہےہیں۔ دوسری طرف لاکھوں مزدور وںکو اس مہنگائی کے دور میں صرف 5ہزار روپے کی معمولی رقم پنشن کے نام پر بھیک کی طرح دی جاتی ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں جب انسان ریٹائر ہو جاتا ہے تو اُسے اپنی سانسیں جاری رکھنے کیلئے طبی سہولتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ریٹائرڈ لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے ملک میں کوئی ادارہ نہیں، پنشن ریگولیٹری اتھارٹی بھی محض ایک بہلاوا ہے ۔ حکومت ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پنشن میں کچھ نہ کچھ حد تک اضافہ کرتی ہے مگر افسوس کہ ای او بی آئی کے تخت رجسٹرڈ پنشنرز کی پنشن میں کبھی اضافہ نہیں کیا جاتا ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کو چھ سال گزر چکے ہیں ، اس کے باوجود ای او بی آئی کو ابھی تک صوبوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت عظمیٰ کو بتا چکے ہیں کہ اس حوالے سے قانون سازی کیلئے فائل وزیراعظم کے پاس پڑی ہوئی ہے۔ لاکھوں غریب ملازمین جنکی پنشن کم از کم پندرہ ہزار مقرر کرنی چاہئے مگر ایسا سوچا بھی نہیں جاتا لیکن دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات پنشن ، انشورنس اور ہیلتھ کارڈ کے اجرا کی تیاری شروع کر دی گئی ہے ۔قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں مراعات کے اضافے کا بل جمع کرا یاگیا ہے۔ جبکہ وزیر خزانہ نے آنیوالے بجٹ میں اس اضافے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ جس سے قومی خزانے پر سالانہ تین ارب روپے کا بوجھ پڑیگا۔ پانچ سال پورے کرنیوالا ہر رکن اسمبلی تاحیات پنشن کاحقدار ہوگا اور وہ اگر کسی بھی نجی اسپتال سے علاج کروائے گا تو اس کا بل قومی اسمبلی یا سینیٹ سیکرٹریٹ ادا کریگا ۔ عوام کو یہ بھی یاد ہوگا کہ یکم اکتوبر 2016ء کو ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 146فیصد اضافہ کیا گیا تھا اور اب ہر رکن اسمبلی ڈیڑھ لاکھ جبکہ ا سپیکر 2لاکھ 5ہزار روپے تنخواہ لے رہے ہیں ، ایسے حالات میں کیا حکمرانوں سے پنشنرز کیلئے کسی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟
پی آئی اوکیلئے چیلنج :نیوز لیکس تنازع کے حوالے سے وزارت اطلاعات نے پی آئی اورائوتحسین کو ہٹا کر انکی جگہ ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز محمد سلیم بیگ کو اضافی چارج دے دیا ہے۔ جبکہ ریگولر تقرری کیلئے سمری وزیراعظم کو بھجوائی گئی ہے ۔ اضافی چارج سے پہلے محمد سلیم بیگ کی وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ایسے موقع پر جبکہ نیوز لیکس کے حوالے سے ایشو ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ بھڑک گیا ہے، ایک غیر متنازع ، غیر جانبدار اور بہت ہی پروفیشنل آفیسر کو پی آئی او کے عہدے پر لانا حکومت کی بڑی اچھی حکمت عملی ہے کیونکہ محمد سلیم بیگ عرصہ دراز سے مختلف وزیراطلاعات کیساتھ کام کرنیکا نہ صرف وسیع تجربہ رکھتے ہیں بلکہ گزشتہ پیپلزپارٹی کے دور ِحکومت میں بھی پرنسپل انفارمیشن آفیسرکے فرائض بڑے احسن طریقے سے نبھا چکے ہیں، ان کے دور میں حکومت اور میڈیا کے تعلقات بہت ہی اچھے رہے اور اے پی این ایس نے اسکے اعتراف کے طور پر انہیں خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا ۔ اب جن حالات میں ان کو چارج ملا ہے وہ بہت ہی غیر معمولی ہیں اور یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ میڈیا سیل براہِ راست وزیراعظم ہائوس سے چلایا جاتا ہے، پی آئی او کا کام تو ڈاکخانہ سے زیادہ نہیں جبکہ دوسری طرف میڈیا میں واضح تقسیم ہے۔ جسکا ایک سیکشن بھر پور طریقے سے حکومت کو نہ صرف کوریج دیتا ہے بلکہ حکومت کی حمایت میں صحافتی و اخلاقی اقدار کو بھی بھول گیا ہے، ایک حصہ حکومتی مخالفت میں تمام حدیں نہ صرف عبور کر چکا ہے بلکہ ایک فریق کے طور پر اپنے آپکو منوانا چاہتا ہے ۔ عام تاثر یہ بھی ہے کہ اشتہارات اور مراعات کی تقسیم بھی حکومت اپنی پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر کررہی ہے۔ ایسے حالات میں ایک غیر جابندار شخص کیلئے حکومت اور پریس کے تعلقات کو ایک ہموار اور برابر ی کی سطح پر لانا اور پھر متنازع ایشوز پر حکومت کا ایک مثبت امیج قائم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے حکومت کو بھی ایسی حکمت عملی اپنانی چاہئے کہ وہ میڈیا کو بذریعہ پی آئی او ہی چلائے اور براہ راست خبریں لگوانے یا رکوانے اور پسند نہ پسند کی بنیاد پر نوازنے کی بجائے کچھ کام میرٹ پر بھی ہونے دے کیونکہ 1998میں بھی میڈیا کیساتھ جسطرح تنازعات شروع کئے گئے اُن کا انجام 12اکتوبر 1999ء کو سامنے آیا اور اب تو حالات اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہیں۔ حکومت کو یہی چاہئے کہ وہ میڈیا پلے کے بغیر اپنے منصوبوں کو تکمیل کی طرف بڑھائے اور وزرا کو جو ہرروز چھوٹے سے چھوٹے ایونٹ کے بعد میڈیا پر آکر اور زیادہ حکومتی امیج خراب کرتے ہیں اُنکو میڈیا سے دور رکھے۔ نئے پی آئی او سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک اور قوم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی ترتیب دینگے ۔ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ میڈیا پر زیادہ آنے سے تو حکومت کے داغ دھبے زیادہ نمایاں ہوتے ہیں اور اپوزیشن تو چاہتی ہی یہ ہے ۔ اسلئے حکومت کے تمام آفیشل اور غیرآفیشل مشیران اپنے اپنے مفادات کو کچھ دیر کیلئے اپنی اپنی پٹاری میں بند کر لیں اسی میں اُن کی بھلائی ہے۔

.
تازہ ترین