• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معمولی بات نہیں۔ ایک جید سیّد زادے نے مجھے ’’جنتی‘‘ قرار دے دیا ہے اور جنت احمقوں کی بھی ہو تو عقل مندوں کے جہنم سے بہرحال بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ میں بیچارہ ریٹائرڈ گنہگار لیکن حاضر سروس احمق زندگی میں ہی ’’جنت مکانی‘‘ اور ’’خلد آشیانی‘‘ ہو گیا تو اس کی کہانی بہت تازہ اور مختصر ہے۔ فقط ایک روز پہلے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تقریر فرمائی اور اعلان کیا کہ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کتنا حسین اتفاق ہے کہ میں ان احمقوں میں سرفہرست ہوں کیونکہ گزشتہ تقریباً چار سال سے میں پیپلز پارٹی کو ’’مرحومہ مغفورہ‘‘ قرار دے رہا ہوں۔ میرے نزدیک موجودہ پیپلز پارٹی سابقہ پیپلز پارٹی کی ممی یا یوں کہہ لیجئے حنوط شدہ لاش ہے۔ ماضی میں ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ کہلانے والی یہ پارٹی حال میں کسی ’’پوڈل‘‘ کو باندھنے والی آرائشی اور باریک سی زنجیر کی کڑی سے زیادہ کچھ نہیں لیکن کچھ لوگ آج بھی اس کے گمشدہ سحر میں کھوئے ہوئے ہیں تو میں ان سے ہمدردی کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں؟ذوالفقار علی بھٹو کو ’’قائد عوام‘‘ پنجاب نے بنایا تھا جسے یہ ایک ایسے شخص کے پاس ہار گئے جو سیاست کی اے بی سی سے بھی نابلد تھا۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نامی اس شخص کو اسٹیبلشمنٹ کی غیر مشروط سرپرستی حاصل تھی لیکن ’’کامیابی‘‘ کا سو فیصد کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو دینا بددیانتی ہو گی کیونکہ اگر یہی سچ ہے تو اسٹیبلشمنٹ ہر پندرہ بیس سال بعد ایک نیا نواز شریف مینوفیکچر یا پروڈیوس کر لیتی۔ اس کھیل میں یقیناً اچھا خاصا کریڈٹ نواز شریف کو بھی جاتا ہے جس نے ہر حربہ آزمایا، "BEG, BORROW, STEAL" سمیت ہر ہتھیار جی بھر کے استعمال کیا جو کسی روایتی، خاندانی، پشتیی، پینڈو سیاستدان کے بس کی بات نہیں تھی۔ چھانگے مانگے سے لے کر ریوڑیوں کی طرح پلاٹ اور نوکریاں بانٹنے تک نواز شریف نے ’’نواز کلچر‘‘ کو پوری طاقت سے پروموٹ کیا۔ ایک سابق آئی جی پنجاب عباس خان کی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہے جو بتاتی ہے کہ کیسے کیسے ’’شرفا‘‘ پولیس میں بھرتی کئے گئے۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے وزارت سے مستعفی ہونے کے بعد بتایا کہ ’’حمایت‘‘ خریدنے کے لئے کس طرح صوبائی وسائل کی لوٹ سیل لگائی گئی۔ نواز شریف نے اس قول پر سو فیصد عمل کیا کہ ’’محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘ اور بیشک اقتدار محبت بھی ہے اور جنگ بھی، سو ہم جیسے بے چہرہ، بے سمت معاشرہ میں یہ سب جائز تھا کہ اس کے بغیر پاکستان کے نسل در نسل ’’دیہہ خدائوں‘‘ کو نکرے لگانا ممکن بھی نہ تھا لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ اور تقدیر کا صرف ایک مذاق تھا۔ پیپلز پارٹی کے بتدریج پگھلنے، ادھڑنے، اجڑنے اور تحلیل ہونے میں بہت بڑا فیکٹر خود پی پی پی کے رویے اور تھرڈ ریٹ پرفارمنس بھی تھی جس کا احمقانہ جواز اور جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ہمیشہ لنگڑی لولی حکومت ملی، کبھی کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر اقتدار کے سرکش پانیوں کی تیز دھار لہروں کے حوالے کر دیا گیا تو کوئی ان کوتاہ اندیش نوگزوں سے پوچھے کہ تم نے لنگڑا، لولا، ادھورا اقتدار قبول ہی کیوں کیا؟ اور پھر ورکرز سے لے کر لیڈرز تک کو ناہید خانوں کے رحم و کرم پر کس نے چھوڑا؟ جب بھی اقتدار میں آئے مالیاتی سکینڈلز کا ساون بھادوں کیسے جاری رہا؟ سچ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مقبولیت کے ساتھ مسلسل بیوفائی اور بدتمیزی روا رکھی جس کے نتیجہ میں ان کی مقبولیت تنگ آکر آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔رہی سہی کسر زرداری صاحب کے ’’بھاری پن‘‘ اور پھر بلاول کی بھونڈی لانچنگ نے پوری کر دی۔ اتنے بیہودہ طریقے سے تو کوئی ’’دیسی صابن‘‘ یا رنگ گورا کرنے والی سستی ترین کریم لانچ نہیں کرتا جیسے تم نے بلاول کو لانچ کیا۔ کبھی ٹھنڈے دل سے سوچو بلاول خود ہے کہاں؟ اس میں کہیں بھٹو لگا دیا گیا کہیں بے نظیر بھٹو ٹھونس دی گئی۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔ تم نے اچھے خاصے نوجوان کو چوں چوں کا مربہ بنا کے رکھ دیا اور بڑھکیں مار رہے ہو اگلی حکومت بنانے کی۔یوسف رضا گیلانی کی ایک اور بات بھی عقل مندی کی عجب کہانی ہے کہ جب وزیر اعظم 18ویں گریڈ کے ملازموں کے حضور پیش ہو گا تو وزارت عظمیٰ کا منصب کیا رہ جائے گا؟بندہ پوچھے تارہ مسیح نامی جس جلاد نے بھٹو کو پھانسی دی کیا وہ 40ویں گریڈ کا تھا؟ منصب اور فرائض منصبی کی دنیا اور ہے۔ ٹریفک سگنل وزیر اعظم بھی پامال کرے، رول آف لا کا وجود ہو تو ظاہر ہے کوئی ٹریفک اہلکار ہی اس کا چالان کرے گا یا آئی جی ننگے پائوں بھاگا آئے گا؟نہ ذہن صحت مند نہ ضمیر ہوش مند۔ نہ سیٹ درست نہ مائنڈ سیٹ صحیح لیکن پھر بھی میں خوش ہوں کہ جنت احمقوں کی بھی ہو، عقل مندوں کے جہنم سے بہتر ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین