• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میڈیا کا کام ملکی مسائل کو ان کی اہمیت اور میرٹ کی بنیاد پر اجاگر کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے ریٹنگ کی وبا کی وجہ سے اب یہ مسائل سے توجہ ہٹانے اور نان ایشوز کو ایشو بنانے کا موجب بن رہا ہے ۔ معاملہ کوئی بھی ہو لیکن اگر وہ گرم ہو اور اس کی بنیاد پر ریٹنگ آرہی ہو، توالیکٹرانک چینل اسے پیٹ رہے ہوتے ہیں لیکن جب اس کی ریٹنگ کا موسم گزر جاتا ہے تو پھر وہ خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، میڈیا اس کو جگہ نہیں دیتا ۔ اسی طرح فالواپ میڈیا کا خاصہ سمجھا جاتا ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کے غلط رجحانات کی وجہ سے اب پرنٹ میڈیا میں بھی فالو اپ کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے اور وہ بھی الیکٹرانک میڈیا کی طرح آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کے فلسفے پر عمل پیرا نظر آرہا ہے ۔ مثلاً کسی زمانے میں قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی خبر کا موسم تھا تو ہر چینل پر صرف یہی ایک ایشو زیربحث تھا لیکن میڈیا نے کوئی فالواپ نہیں کیا کہ اس کا کیا ہوا ، حالانکہ مسئلہ جس قدر اس وقت سنگین تھا ، آج بھی ہے ۔ کسی زمانے میں پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفوں کا غلغلہ تھا لیکن اب کوئی چینل یااخبار زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اس ایشو پر قوم کو اپ ڈیٹ دیدے ۔ جب دھماکوں کا موسم عروج پر ہوتا ہے تو میڈیا میں بھی نیشنل ایکشن پلان اور جوابی بیانیے کا غلغلہ ہوجاتا ہے لیکن جب کچھ دنوں کے لئے خاموشی ہوجاتی ہے تو میڈیا سے بھی نیشنل ایکشن پلان اور جوابی بیانیے کے ایشوز غائب ہوجاتے ہیں ۔ تازہ ترین مثال مشال خان کے قتل کا معاملہ ہے ۔ چند روز ہر چینل پر اس ایشو کا غلغلہ رہا لیکن اب فالو اپ نہ ہونے کے برابر ہے ،حالانکہ وہ معاملہ اس قدر سنگین ہوتا جارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں قومی سطح پر بڑے فساد کا خطرہ پیدا ہوگیاہے ۔ ایک طرف ضلع صوابی میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل فورم تشکیل پایا ہے جو مشال خان کے والد کے ساتھ کھڑا ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر مشال خال کے قاتلوں کا سزا نہ ملی تو تمام سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد لاکھوں لوگوں کو لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گا۔ یہ فورم مشال خان کو بے قصور قرار دے رہا ہے اور ان کے قاتلوں یا سہولت کاروں کے لئے سنگین سزائوں کا مطالبہ کررہا ہے جبکہ دوسری طرف مردان اور چارسد ہ میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی ایک اتحاد تشکیل دے کر احتجاج کا آغاز کردیا ہے ۔جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے مقامی رہنمائوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے اکرام اللہ شاہد بھی مردان کے احتجاج میں شریک ہوئے جس کی بنیاد پر پارٹی نے انہیں شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا ہے ۔ وہ دوغلا پن اپنی جگہ کہ ایک طرف جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق نے نجی ٹی وی پر عادل عباسی کے ساتھ انٹرویو میں مشال خان کے قتل کی مذمت ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ کی کہ کسی شہری یا گروہ کو عدالت بن کر کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں اور دوسری طرف چارسدہ اور مردان دونوں میں مبینہ قاتلوں کی حمایت میں منعقدہ جلسوں میں ان کی جماعت کے ضلعی رہنما موجود ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف مشال خان کے خلاف اس اتحاد کی طرف سے پوسٹرز اور ہینڈ بلز تقسیم کئے جارہے ہیں ۔ مردان کے جلسے سے خطاب کے دوران جے یو آئی کے رہنما اور سابق ایم این اے مولانا شجاع الملک نے مشال کے قتل کے ملزمان کو غازی قرار دے دیا اور عبدالولی خان یونیورسٹی کوان کے نام سے منسوب کرنے کی بجائے مشال خان کے قاتل کے نام سے منسوب کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ یہ تقاریر سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں مقررین پولیس کو بھی تاکید کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں حکم عدولی کرکے گرفتار شدگان کو رہا کرنے میں مدد کریں ۔ مقررین نے مشال خان کی حمایت پر میڈیا کو بھی دھمکی دی اور لوگوں کو تلقین کرتے رہے کہ وہ حمایت کرنے والوں کے ساتھ حساب برابر کریں ۔یہ معاملہ یوں خطرناک شکل اختیار کررہا ہے کہ ایک طرف یہ معاملہ فرقہ وارانہ اور لبرل یا مذہبی طبقات کی کشیدگی کی طرف جارہا ہے اور دوسری طرف اسے صوابی اور مردان کے اضلاع کی جنگ بنانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ بدقسمتی سے میڈیا بھی اب دوسرے ڈراموں میںلگ کر اس سنگین معاملے کے اس سنگین رخ پر توجہ نہیں دے رہا اور دوسری طرف حکومت بھی تماشائی بنی ہوئی ہے ۔
دوسرا اہم ترین ایشو جو پاناما اور ڈان لیکس کے ڈراموں کی وجہ سے میڈیا نے بھلا دیا ہے ، فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام کا ایشو ہے ۔یہ کام نہ ہوا تو پاکستان میں امن آسکتا ٰہے اور نہ دہشت گرد ی کیخلاف جنگ میں سیکورٹی فورسز اور عوام کی قربانیوں کا ثمر مل سکتا ہے اور اگر بجٹ سیشن سے قبل اجلاس بلا کر اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی گئی تو پھر یہ کام اگلے پا نچ سالو ں میں نہیں ہوسکتا۔ظلم کی انتہادیکھ لیجئے کہ سوائے جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے باقی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں ادغام کے حق میں رائے دے چکی ہیں لیکن اصلاحات کا کریڈٹ لے کر اب موجودہ حکومت اس معاملے کو سردخانے میں ڈالنا چاہتی ہے ۔وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پنجاب پر نظر رکھنے والی حکومت اتنی رقم قبائلی علاقوں کو منتقل کرنے پر تیار نہیں جس کی اس کی اپنی سرتاج عزیز کمیٹی نے سفارش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے تو سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کو سامنے لانے میں کئی ماہ کی تاخیر گئی ۔ پھر قبائلی عوام اور نمائندوں کے احتجاج کے نتیجے میں اسے سامنے تو لایا گیا لیکن اسے کابینہ کے سامنے منظوری کے لئے پیش نہیں کیا جارہا تھا۔ پھر جب دھرنے کی دھمکی ملی تو باامر مجبوری اسے کابینہ سے منظور کروایا گیا لیکن اب قانون سازی کے لئے اسے اسمبلی میں پیش نہیں کیا جارہا ۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے اراکین اسمبلی کی دعوت پر گزشتہ روز اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جے یو آئی اور پختونخوا میپ کے سوا تمام سیاسی، دینی اور قوم پرست جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس کانفرنس میں وزیراعظم نے اپنے قانون کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ خان کو بھیجا جنہوں نے وزیراعظم کی طرف سے وعدہ کیا کہ اسمبلی کے اگلے اجلاس میں فاٹا ریفارمز کو منظوری کے لئے پیش کیاجائے گالیکن چونکہ قبائلی عوام کو اب حکومت پر اعتماد نہیں اس لئے مشترکہ اعلامیہ میں یہ کہا گیا کہ اگر بجٹ اجلاس سے قبل فاٹا ریفامز کے لئے وزیراعظم کے اعلان کے مطابق خصوصی اجلاس نہ بلایا گیا اور اگر 20 مئی تک قانون سازی کا عمل مکمل نہ کیا گیا تو اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا اور اس اعلامیہ کی رو سے تمام سیاسی جماعتیں اس دھرنے کی حمایت کریں گی ۔ فاٹا کے عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا ظلم بعض حوالوں سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم سے بھی زیادہ سنگین ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ روئے زمین پر اس وقت اگر انسانی غلامی کی کوئی بدترین مثال ہے تو فاٹا کے عوام کی غلامی ہے ۔ پاکستان کی سلامتی کے تناظر میں دیکھاجائے تو اس لحاظ سے بھی یہ معاملہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے اور فاٹا کو قومی دھارے میں لائے بغیر کسی صورت پاکستان محفوظ نہیں ہوسکتا۔ یوں جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو، ہماری سیاست اور میڈیا پر یہ ایشو حاوی رہنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے چونکہ اس سے ڈرامہ نتھی ہے اور نہ اس میں انٹرٹینمنٹ کا کوئی سامان ہے ، اس لئے اپنی اہمیت کے لحاظ سے نمبرون ہوکر بھی میڈیا اور سیاستدانوں کی ترجیحات کی فہرست میں وہ جگہ نہیں پاتا ۔ تاہم میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اگر اگلے بجٹ سے قبل قانون سازی نہ کی گئی تو پھر یہ معاملہ اس دور حکومت میں حل نہیں ہوسکتا اور اگر یہ مسئلہ حل نہ ہو اتو پھر پاکستان کے محفوظ بن جانے کا خواب دل سے نکالنا ہوگا بلکہ میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ فاٹا سے نئے نام پر نئی شکل کے ساتھ ایسا فساد نمودار ہوگا کہ جس کی آگ سے لاہور محفوظ ہوگا اور نہ کراچی ۔قانون سازی کے بعد بھی بہت کچھ کرنا ہوگا جس کے لئے یہ حکومت تیار نظر نہیں آتی لیکن کم از کم قانون سازی ہوجانے سے اس عمل کا آغاز تو ہو جائے گا۔

.
تازہ ترین