• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’آئین نو‘‘ کے جاری جمہوری عشرے میں مقاصد قیام پاکستان کی روشنی میں ملکی استحکام، عوامی ترقی کی راہوں، حقیقی جمہوری عمل کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ شدت سے مطلوب گڈ گورننس عوام دشمن جاری نظام بد کی بیخ کنی اور جن دیگرظہور پذیر قومی ضرورتوں کی نشاندہی تکرار کے ساتھ کی گئی، ان میں ایک ’’حکمرانوں اور ذمہ دار سیاسی قائدین کی غلط پالیسیوں، فیصلوں، اقدامات اور غیر ذمہ دارانہ ابلاغ و سیاست کا اعتراف‘‘ ہے، جسے کالم کے بیانئے میں ’’ایک مثبت طاقت‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ اصل میں غلطی کا اعتراف، ’’تبدیلی‘‘ ہوتا ہے، مطلوب تبدیلی۔ اسے ماننے اور جاننے سے انسان اپنی اصلاح کرتا ہے، یہی طاقت اس کی شخصیت کو نکھارتی اور احترام و اعتماد کو بڑھاتی ہے۔
پاکستان کے آمر اور منتخب ہر دو اقسام کے حکمرانوں اور بینی فشری ہمنوائوں اور معاونین کا یہ وتیرہ رہا کہ میڈیا، اپوزیشن اور سچے و بلا غرض ناقدین کی سچی اور مبنی بردلائل تنقید پر ایک تو وہ سیخ پا ہوتے ہیں اور اس کی تکرار پر عوام مخالف اور خلاف آئین و قانون پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات کے جواز میں شر پسند، عوام دشمن، ایجنٹ اور غدار کے جوابی بیانئے سے حملہ آور بھی یوں ان کی اپنی اصلاح کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں کا غلطیوں اور عوام مخالف ملکی حالات کا اعتراف انہیں وہ طاقت عطا نہیں کرتا جو ایک عام فرد کو روز مرہ زندگی میں اپنی غلطیوں کے اعتراف سے حاصل ہوتی ہے۔ حاکم بروقت اعتراف (اور ممکنہ مداوا بھی) کر لیں تو حالات اتنے خراب ہی نہیں ہوتے کہ ان پر مسلسل تنقید ہوتی رہے، ہو تو زیادہ موثر نہیں ہوتی، لیکن جب وہ مبنی بر حقائق دلائل اور تنقید و تجزیئے کو مسلسل نظر انداز کئے جاتے ہیں اور بہت بڑے بگاڑ اور خود کو خطرات و خدشات میں گھرا دیکھ کر اپنی اخلاقی پوزیشن بنانے کے لئے اعتراف کرتے ہیں تو ہوتا تو وہ بھی قابل تعریف اور مثبت انسانی جبلت کا آئینہ دار، لیکن یہ دیر آید کوئی زیادہ درست آید نہیں ہوتا، اس سے تھوڑا سا ذات کو تو فائدہ پہنچ جاتا ہے جو بگاڑ پیدا کیا ہوتا ہے اس کے لئے یہ ہرگز کارآمد نہیں ہوتا۔ ہوتا یہ ہے کہ جب میڈیا، اپوزیشن اور ناقدین کی تنقید ناقابل تردید ہوتی اور اس کی تصدیق ہونے لگتی ہے تو اتنی دیر میں اعتراف کی طاقت (اور وہ بھی مسلسل ہو تو) عوام کے ایک حصے میں جذبہ ترحم تو پیدا کر سکتی ہے، لیکن سچی ثابت ہونے والی تنقید سے جو رائے عامہ بن چکی ہوتی ہے وہ بڑی طاقت ور اور نتیجہ خیز ہو چکی ہوتی ہے بشرطیکہ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپوزیشن کی اپنی کپیسٹی بھی ہو تلخ حقائق کی بے نقابی سے جو رائے عامہ بنتی ہے، وہ نااہل اور کرپٹ حکومتوں کے ابلاغ کو آئیں بائیں شائیں میں تبدیل کر دیتا ہے، جبکہ اس سے پہلے یہ حکومتی بیانیہ پروپیگنڈہ اسٹائل میں ناقدین کو شر پسند، انتشار پسند، عوام دشمن اور غدار تک قرار دے رہا ہوتا ہے۔ جیسے اس مرتبہ ’’شرفاء کی حکومت‘‘نے دلائل و حقائق سے لیس اپنے ناقدین کو ’’ترقی کے دشمن‘‘ کے الزام سے نوازا۔ یہ الگ بات ہے کہ ساتھ ساتھ جناب شہباز شریف نے ذرا پہلے سچی وکھری تنقید کو براہ راست مانے بغیر ملک پر مسلط نظام بد کا اعتراف کیا اور اسے گلا سڑا قرار دیا جبکہ، جناب وزیراعظم نے اب انتخابی سال میں یہ مان لیا۔ تب جب ان کی صداقت اور امانت بطور وزیراعظم پر صرف انگلیاں نہیں اٹھ رہیں، اس کا ہونا یا نہ ہونا عدالتوں میں زیر سماعت ہے، اور وہ تفتیش کے مرحلے سے گزرنے کو ہیں، لیکن ان کا یہ صادق بول کہ ملک میں ’’بے حساب کرپشن ہے‘‘ انہیں کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گا۔ اس سوال کا جواب انہوں نے اپنے ’’اعتراف حقیقت‘‘ کے رسپانس میں اٹھنے والے چبھتے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اب دینا ہو گا کہ، جب اس قدر کرپشن ہے تو آپ کو اس کی بیخ کنی کا جو انتظامی اختیار آپ کے پاس بطور وزیراعظم ہے، کیا وہ آپ کے پاس عوام کی دی امانت نہیں؟ کہ آپ نے استعمال کر کے کرپشن کو روکنا تھا روکنا ہے، لیکن آپ تو اس کے سامنے اتنے بے بس معلوم دے رہے ہیں کہ انسداد کرپشن کے سارے ادارے اپنے قیام کا مقصد کھو چکے ہیں لیکن آپ عوام کی دی گئی اس امانت کا استعمال ہی نہیں کر رہے نہ چار سال میں کیا، جو وجہ پاکستان میں غربت و افلاس اور وہاں سے ایک مخصوص فیصد میں دہشت گردی اور جرائم کا باعث بنی، اسے ختم کرنے کے لئے آپ نے کیا کیا؟ نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟ ناقدین کو چھوڑیں، عدلیہ نے پاناما کیس کی سماعت میں انسداد کرپشن کے ریاستی اداروں کی فرائض کی ادائیگی کا جو تجزیہ کر دیا، اس پر اٹھنے والے سوالوں کے جواب کے لئے آپ کے پاس کوئی میڈیا سیل کوئی وزیر کوئی ابلاغی معاونین ہیں؟ ہیں تو آپ اپنے ترقیاتی کام جاری رکھیں، انہیں بھی پاناما کیس پر لگانے کی بجائے، وہ جواز وہ وجوہات وہ منطق قوم کو بتانے سمجھانے پر ہی لگا دیں کہ کرپشن سے لتھڑے پاکستان کا یہ گند جس نے ہماری گورننس، ہمارے ریاستی ڈھانچے اور ہمارے عوامی خدمت کے اداروں کو برباد کر دیا، اسے صاف کرنے کے لئے آپ نے کوئی ایک سنجیدہ قدم بھی آخر کیوں نہیں اٹھایا؟ اب آپ کے ’’اعتراف حقیقت‘‘ کے بعد تو یہ دعویٰ بھی ختم ہو گیا کہ آپ کے جاری دور میں کوئی کرپشن ہی نہیں ہو رہی۔ یہ جو ترقیاتی پروجیکٹس اور اداروں کے ریکارڈ جلتے ہیں۔ یہ جو ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات عوام سے چھپائی جاتی ہیں پٹرول نمایاں سستا ہونے کے بعد یہ جو ملک میں بجلی اس قدر مہنگی ہے اور ناپید بھی یہ جو ارب ہا کے لائف اسٹائل میں رہنے والوں کا شرمناک ٹیکس ریکارڈ ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ اور یہ جو تھانہ کچہری کلچری عوام کے حقوق بھی کرپشن کے عوض دیتا ہے اور انہیں خود بھی کرپٹ کئے جا رہا ہے اس کے خلاف قانون، اداروں کی اصلاح اور انتظامی اقدامات کس نے کرنے ہیں؟ اپوزیشن نے، ترقی کے دشمنوں نے، ملک کے بیرونی دشمنوں یا آپ جیسے ترقی کےعلمبرداروں نے، عوام کے منتخب نمائندوں نے، عوام کے با اختیار خادموں نے؟ بے شمار کرپشن روکنے کے لئے ای گورننس کا جاندار ہمہ گیر اور سائنٹفک ماڈل کی تشکیل اور امانت کے طور اس کا اطلاق ہی کافی تھا اسی ’’آئین نو‘‘ میں آپ کے تیسری بار بطور وزیراعظم بننے پر یہ واضح کیا گیا تھا کہ ملک میں انتظامی اور مالی شفافیت کے خواب اور ہمارے استحکام و سلامتی کی حد تک قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ای گورننس متعارف کرانا حکومت کی سنجیدگی اور اس کا عملی مظاہرہ ایک ٹیسٹ کیس ہو گا جس کے تمام تر وسائل اور مطلوب لازمے ملک میں قوی دستیاب ہیں، لیکن کیا ہوا؟ صرف اشتہاری مہمات کے لئے معینہ بے جان ڈھیلے ڈھالے پروجیکٹ جن کا کوئی نتیجہ نہیں۔ صنعت کاروں، بڑے تاجروں اور پر تعیش لائف اسٹائل والے اہل سیاست، بابوئوں، جرنیلوں، ججز اور پراپرٹی ٹائیکونز سے بمطابق ٹیکس وصولی کے لئے کوئی ایک قدم بھی اٹھایا گیا۔ قرضے اور عوام پر ٹیکس در ٹیکس سے ان کی ادائیگی کا طائر لاہوتی کہیں نظر نہ آیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لے کر ورلڈ بینک کے تباہ کن قرضوں تک کشکول ہی کشکول نظر آ رہے ہیں یا غربت کی دین خودکشیاں۔

.
تازہ ترین