• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارب پتی ہندو تاجر ’’سجن جندال‘‘ کے خفیہ دورئہ پاکستان کا انکشاف ہوا ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کی۔ کہا یہ جارہا ہے کہ جندال کلبھوشن معاملے پر بھارتی وزیراعظم مودی کا خصوصی پیغام لایا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف ابھی پاناما کے ہنگامے اور ڈان لیکس کے معاملے سے نکل نہیں سکے تھے کہ ایک بھارتی وفد کے ساتھ مری میں ہونے والی ملاقات نے انہیں نئے اسکینڈل میں پھنسادیا۔ آپ پہلے کلبھوشن یادیو کو لے لیجئے۔ کلبھوشن یادیو کا فرضی نام ’’حسین مبارک پٹیل‘‘ تھا۔ یہ بھارتی ریاست مہاراشٹر کا رہائشی تھا۔ یہ پولیس افسران کے خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نے 1987ء میں بھارتی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی جوائن کی۔ 1991 میں بھارتی نیوی میں ملازمت اختیار کی اور 2001 تک یہ بھارتی نیوی کا ملازم رہا، مگر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد اسے انفارمیشن اور انٹیلی جنس جمع کرنے کی ڈیوٹی سونپی گئی۔ اس نے 2003میں انٹیلی جنس آپریشنز شروع کئے۔ یہ ایرانی بندرگاہوںچاہ بہاراور بندرعباس پر کاروباری شخصیت کے روپ میں اترا۔ اس نے ان بندرگاہوں کو اپنی آماجگاہ بنایا۔ بزنس مین کا روپ دھارا اور پاکستان میں خفیہ کارروائیوں کا جال بچھانا شروع کردیا۔ یہ اس سلسلے میں 2003 اور 2004 میں کراچی بھی آیا اور اس نے بلوچستان تک رسائی بھی حاصل کرلی۔ اس نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے رابطے قائم کئے۔ انہیں فنڈنگ شروع کی۔ کراچی اور پاکستان میں ان باغیوں کے ذریعے فساد و قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ پاکستانی انٹیلی جنس کو اس کی فون کالز سے شک کا شبہ گزرا۔ پاکستانی انٹیلی جنس نے اس کی نگرانی شروع کردی۔ پھر 3؍ مارچ 2016ء کو یہ جب ایران سے بلوچستان میں داخل ہورہا تھا تو اسے ’’ماشکیل‘‘ کے علاقے سے گرفتار کرلیا۔ کلبھوشن نے گرفتاری کے بعد خود کو نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا اہلکار تسلیم کیا، بلکہ اس نے بلوچستان اور کراچی میں ’’را‘‘ کے پھیلائے گئے جال کی ایک ایک گرہ بھی کھول دی۔ اس نے حساس اداروں نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ وہ تاجر کے روپ میں پاکستان میں لوگوں سے رابطے میں رہا۔ فنڈنگ کرتا رہا۔ اس کے عوض دہشت گردی کی کارروائیاں کراتا رہا۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں اس کا ٹرائل ہوا۔ الزام ثابت ہو گیا۔ پاکستان نے اس بھارتی جاسوس کے اعترافات اور ثبوتوں پر مشتمل دستاویز امریکہ اور اقوام متحدہ کو پیش کیں، لیکن عالمی استعمار نے بھارتی مداخلت کو روکنے، اس کو تنبیہ کرنے، پابندی عائد کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرلی۔ دنیا کی اس خاموشی کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں اس کا ٹرائل مکمل ہوگیا۔ گزشتہ دنوں اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ کہانی ابھی یہاں ختم نہیں ہو تی۔ یہ داستان ایک نیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہے۔ اِدھر پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی۔ اُدھر نیپال سے ایک ریٹائرڈ پاکستانی کرنل حبیب ظاہر کے اغواکی خبر سامنے آگئی۔ یہ صاحب پاک فوج میں 2014تک ملازم رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فیصل آباد میں ملازمت شروع کی۔ اس دوران انہوں نے اپنی سی وی اقوام متحدہ اور ایک ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی۔ مارچ 2017میں انہیں ’’اسٹارٹ سولوشنز‘‘ نامی ویب سائٹ کے ذریعے نوکری کی پیش کش ہوئی۔ ’’مارک تھامسن‘‘ نامی ایک شخص نے ای میل کے ذریعے ان سے رابطہ کیا۔ انہیں 8500 ڈالر تنخواہ اور زونل ڈائریکٹر برائے سیکورٹی کی ملازمت آفر کی۔ کرنل(ر) حبیب نے حامی بھرلی۔ ملازمت کی کنفرمیشن کے لئے انہیں کھٹمنڈو بلایا گیا۔ انہیں فضائی ٹکٹ بھی فراہم کردیا گیا۔ یہ کرنل(ر) حبیب 6؍ اپریل کو نیپال پہنچ گئے۔ نیپال کے لمبینی ائیرپورٹ پر ایک شخص نے ان کا استقبال کیا۔ یہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اوراس کے بعد لاپتہ ہوگئے۔ ابتدائی تحقیقات یہ بتا رہی ہیں کرنل (ر)حبیب کو جس ویب سائٹ کے ذریعے پیش کش کی گئی اور مارک تھامسن نامی جس شخص نے رابطہ رکھا، یہ فرضی اور جعلی کردار تھے۔ فون نمبر اور ویب سائٹس دونوں انڈیا سے کنٹرول کئے جا رہے تھے۔ یوں یہ ریٹائرڈ پاکستانی کرنل اب بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ ابھی جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں کسی بھارتی ایجنسی یا بھارتی عہدے دار نے اس کی ذمہ داری قبول کی، نہ ہی کلبھوشن کے معاملے میں کرنل حبیب کو استعمال کرنے کا عندیہ دیا، مگر پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے بھارت کلبھوشن کو بچانے کے لئے پاکستانی کرنل پر جھوٹا مقدمہ بنائے گا۔ سنگین الزامات عائد کرے گا۔ انہیں پاکستانی جاسوس ڈکلیئر کرے گا اور اس کے بعد پاکستان سے کلبھوشن کے بدلے کرنل حبیب کی رہائی کا بیک ڈور مطالبہ کر دے گا۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے بھارت نے اپنے جاسوس کو بچانے کے لئے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ بھارت اس سلسلے میں پاکستان پر بین الاقوامی اور داخلی دبائو بھی بڑھائے گا۔ اس سلسلے میں آپ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کا لوک سبھا کا خطاب ہی ملاحظہ کرلیجئے۔ لیجئے۔ سشما سوراج نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا ’’کلبھوشن بھارت کا بیٹا ہے اور بھارت اپنے اس بیٹے کوبچانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ پاکستان کو سمجھنا چاہئے، سزائے موت سے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔‘‘ یعنی دوسرے الفاظ میں پاکستان کو دوٹوک دھمکی۔ خدشات ہیں بھارت کے حقیقی جاسوس کو بچانے کے لئے ایک معصوم اور بے گناہ پاکستانی فوجی افسر بھینٹ چڑھ جائے گا، مگراب سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان کو ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہئے؟ اس ساری صورت حال میں پاکستان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک پاکستان کلبھوشن یادیو کو سنائی گئی سزا پر قائم رہے۔ کسی بھی طرح کے اندرونی و بیرونی دبائو کو نظر انداز کر دے اور دشمن ملک کے اس ـ’’بیٹے‘‘ کو عبرتناک انجام تک پہنچا دے۔ دوسری صورت میں پاکستان کلبھوشن کے مقدمے کو لٹکا دے۔ یہ اسے اپیل میں جانے کا موقع دے۔ بھارت سے اپنے فوجی افسر کو بچانے کے لئےبیک ڈور رابطے شروع کرے اور سال دو سال بعدواہگہ بارڈر پر کلبھوشن بھارت کے حوالے کر کے کرنل حبیب کو واپس لے لے، لیکن پاکستان کو پہلے راستے کا انتخاب کرنا چاہئے۔ یہ راستہ اگرچہ کٹھن اور مشکل ہے، لیکن اسی میں ملک کی بقا اور دشمن کی سبکی ہے۔ پاکستان بھارتی جاسوس کے تمام ثبوت پبلک کر دے۔ ساتھ ہی کرنل (ر) حبیب کی تمام ہسٹری اور حقائق بھی دنیا کے سامنے رکھ دے۔ وہ ای میل ڈیٹا، وہ فون کالز کی تفصیلات اور سفری دستاویزات عام کر دے جن کے ذریعے پاکستانی فوجی افسر کو ٹریپ کیا گیا۔ خیال ہے اگر ہم نے اس بار بھی ’’لے دے‘‘ کی پالیسی اختیار کی تو ہم دشمنوں کی شیطانی چالوں کا قلع قمع نہیں کر پائیں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو پاکستانی فوجی افسر کی طرح بھارت پوری پاکستانی ریاست کو گھیر لے گا۔ قوموں کو بعض اوقات تلخ حالات میں غیرمعمولی اور دوٹوک فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے میں بھی پاکستان کو غیرمعمولی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اسے کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ اگر ہم نے اس بار بھی کلبھوشن کے بدلے کرنل حبیب مانگ لیا تو ہماری آزادی و خودمختاری دائو پر لگ جائے گی اور بھارت اپنی چال میں کامیاب ہو جائے گا اور بھارتی جاسوس روپ اور بہروپ بدل بدل کر آتے رہیں گے۔

.
تازہ ترین