• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی پی پی کے تناظر میں گفتگو یہاں پر تھی:’’لیکن بات کیسے بگڑی؟ وہی ون ملین ڈالر سوال، سو بات ایسے بگڑی، سنو، ایک جانب پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے فلسفہ عوام کی پاسبان بنی ہوئی تھی، دوسری جانب اسی ایوان صدر کے ملاقاتی، جی ہاں صرف ملاقاتی، وفاقی محکموں کے افسروں سے کہتے! ’’چالیس لاکھ کے ماہانہ اشتہارات دیتے ہو یا نہیں؟ بات بگڑی اس پارٹی کے میڈیا سیلز میں موجود ان کم نگاہ انا پرستوں کے ہاتھوں جن سے ایک لفظ کا اختلاف، گناہ کبیرہ کے مترادف ٹھہرا، بات بگڑی ان وزراکے دن رات غرور اور اعمال سے جن کی فرعونیت، نے بھٹو کی عوامیت کو ذلیل کر کے رکھ دیا، بات بگڑی جب بیس تیس گاڑیوں میں جانے والے قائم علی شاہ کے طوفانی قافلے کی مٹی اور دھول عام سندھی کے چہرے پر پڑی، اب کہتے ہو، پنکھے لے کر مینار پاکستان جائیں گے، شہباز شریف کا نام رکھیں گے، وہ ’’کارکنوں کے درمیان بیٹھ گئے‘‘ کے جملے چھپتے اور چھپوائے جاتے ہیں، نواز کو عدالت نے نمبر ’’2‘‘ قرار دیدیا ہے (قانوناً 100فیصد جھوٹ) اور یہ سب پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کررہے ہو، کیا لوگ اندھے ہیں؟ کیا تمہیں نوازشریف کو کائونٹر کرنے کی عقل اپنے ان نعروں میں کار فرما دکھائی دیتی ہے؟‘‘
اب آگے چلتے ہیں، 4مئی 2017ء سے ایک روز پہلے بڑھک لگائی گئی ’’دیکھتے ہیں ہمیں مینار پاکستان پر احتجاج کرنے سے کون روکتا ہے؟ ہم سڑکیں بلاک کردیں گے، ڈٹ جائیں گے اور 4مئی کی صبح اخبارات میں ناصر باغ میں جمع ہونے کی خبر دیدی گئی؟ پھر ایڑیاں اونچی کر کے اس اُچّکی سیاسی رنگ بازی کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ شہباز کا نام ہر کارکن سوچ کر آئے‘‘ پھر نام رکھا کیوں نہیں؟‘‘ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تمہارے گزشتہ دور اقتدار میں مینار پاکستان میں پنکھے لے کے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی پروگرام ریکارڈ کرایا تھا، وہ تو اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں موجود رہے، نیت کیا تھی؟ یہ سب زیر بحث نہیں، انسانوں کی بہت بڑی اکثریت ان ’’پنکھوں‘‘ کے باوجود عوام سے لاتعلقی، کا چہرہ دیکھنے میں ناکام نہیں رہی تھی، وہ احتجاج ’’اپنی سرشت‘‘ میں قطعاً عوام سے محبت کا کوئی درد نہیں تھا، سب اقتدار کے ہوس پرست کناروں سے لٹکے ہوئے تھے لیکن، تم تو اقتدار کی ہوس پرستی میں بھی راہ چلتے ان لڑکوں کی مانند ہو جو عورتوں کے ’’پرس‘‘ چھین کر بھاگ جاتے اور اکثر راہ ہی میں پکڑے جانے پر سرعام ’’رسوا‘‘ ہوتے ہیں، ناصر باغ ہی میں دو تین روز ’’قیام‘‘ کر کے دکھادیتے، وہاں تم نے کس کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی شہ زور پارٹی اور ان کی تہلکہ خیز سیاسی عمل پذیری کی بھد اڑائی، ناصر باغ میں اپنے لوڈشیڈنگ احتجاج سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہے سہے بھرم کا جنازہ اٹھنے کا اہتمام کر گئے ہو!
سارے پنجاب سے اکٹھے ہوتے ہو، ناصر باغ کا آدھا حصہ بھی نہیں بھرتا، گلے میں پارٹی کے نشان میں رنگے ’’صافے‘‘ ڈال کر، اپنی جانب سے آپ پنجابی زبان میں عوامی تعلق کا ستارہ بن کر، وہاں موجود سامعین و حاضرین کو ’’کیتا کی اے‘‘کے نعرہ باز جملوں سے کسی انفرادیت کا جنم دکھانا چاہتے تھے عملاً کیا سامنے آتا ہے؟ ’’کیتا کی اے‘‘ کی نعرہ بازی سیاسی آوارگی کے منظر نامے کی نمائندہ محسوس ہوئی، چیخ چیخ کر بولنے کے باوجود الفاظ میں عوام سے مکمل لاتعلقی کی سچائی کو اندھے دیکھ سکتے اور بہرے سن سکتے تھے، چنانچہ اس روز پنجاب کی دھرتی کے بطن سے ہی کسی آواز کا نقارہ بج رہا تھا جس کی صدا میں ’’کیا لوگ اندھے ہیں؟‘‘ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں! کیا مصطفےٰ کھر، محمد حنیف رامے جیسے لوگ جب اس پارٹی کے لیڈروں کے طور پر اسٹیج پر آئے تب ان کے لفظوں میں عوامی سرشاری ٹھاٹھیں مارتی تھی یا عوای تصنع کی نحوست جاننے والوں کو اداس اور مایوس کر جاتی تھی، جائیں، گروہ بندیاں کریں، قیادت کے آگے پیچھے رہ کر اگلے الیکشن میں، کسی وزارت کے ٹارگٹ پر کام کرو، ایسے لوگ ہر دلعزیز شخصیت کی حیثیت سے متعارف کرائیں جو اب کی بار بھی وفاق کے محکموں میں جا کر مجاز اتھارٹیز سے کہیں ’’ہاں بھئی! ہمارا ماہانہ معاہدہ کیا ہوگا؟ نہ ہونے کی شکل میں خود کو اس سیٹ سے محروم سمجھو!‘‘ آہ! کارپٹ بیگرز (CARPET BEGGARS)
پنجاب میں پیپلز پارٹی کو یہاں کی صوبائی قیادت کے نمائندوں کی اکثریت نے زبان اور عمل کے اس تاریخ ساز مکالمے اور کردار سے ہی محروم کردیا ہے، یہ صوبہ جس کی آن اور شان سے گزر چکا، اسے برت چکا اور اپنے حقوق کے لئے طاقتوروں کے مقابل سینہ سپر ہو چکا، پنجاب کے قصے کو تھوڑی دیر کے لئے ملتوی کرتے ہیں!
سند ھ میں گزشتہ آٹھ برس سے برسراقتدار ہو، کراچی سے لے کر اندرون سندھ، لاڑکانہ سمیت، تمہاری کارکردگی وہاں کے باشندوں کی روح کا ناقابل تلافی گھائو ہے؟ کیا کراچی اور اندرون سندھ کےشہروں، گوٹھوں سمیت وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود میں تم لوگوں کی راہ میں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ یا ’’رینجرز‘‘ حائل تھے؟ بھلا اس سطح کی عوامی خدمات سے انہیں کیا لینا دینا؟ ایک عالمگیر خان جیسے امیچوراور غیر متوازی طرز فکر کے حامل شخص نے سندھ میں تم لوگوں کی کارکردگی برہنہ کر کے دکھا دی؟ وہ کس پس منظر میں تم لوگوں کے خلاف ’’پروجیکٹ‘‘ کیا گیا؟ یہ کہانی ہمارے سوال کا کچھ نہیں بگاڑتی؟ جب آپ نے ان آٹھ برسوں میں، نقارہ خلق خدا کے مطابق، دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کرپشن، مجرمانہ عوامی غفلت اور عوام کی اکثریت کو مخاطب کئے بغیر اپنی ساری جدوجہد ’’چند افراد‘‘ (بھلے وہ کتنے ہی مظلوم تھے) تک ’’فوکس‘‘ کردیں یا لوگوں کو ایسا لگے، تب ایسی عدم بصیرت پر مبنی حکمرانی کو عالمگیر خان کے معیار جیسے افراد کافی شافی ہوتے ہیں، کوئی اسٹیبلشمنٹ یا حزب مخالف ان آٹھ برسوں میں شہری زندگی اور عوامی کارکردگی کے محاذوں پر تمہارا راستہ نہیں روک سکتی تھی مگر جب ’’سیاسی اثاثوں‘‘ کا تذکرہ ہی جنس بازار، بنانا طے پا گیا ہو وہاںپر ’’عالمگیر خان‘‘ بھی ناقابل شکست سیاسی خمیر کا ٹھٹھا اڑا سکتے اور اڑا رہے ہیں، اب سندھ کو چھوڑ کر پھر پنجاب کا رخ کرتے ہیں!
بھٹو لیگی کے ادارے کی جانب سے ’’افکار ذوالفقار‘‘ کے ٹائٹل سے ایک غیر معمولی کتاب مارکیٹ میں لائی گئی ہے، پاکستان کے مقتدر صحافی محمود شام اس کے مرتب ہیں، اس کا ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں، 1968ء میں ذوالفقار علی بھٹو کہتے ہیں! ’’پاکستان طوفان کی زد میں ہے، جب ہم اپنی آزادی کے پہلے بیس سالوں پر نظر ڈالتے ہیں تو بین الاقوامی اور برصغیر کے مسائل گڈمڈ ہونے کے خطرناک رجحان پر نظر پڑتی ہے۔ یہ خیال بے معنی ہے کہ دنیا میں بحران معمول بن چکا ہے اور اس مضطرب عہد کا نہ ختم ہونے والا قدرتی سلسلہ ہے، اس مروج ابلیسی رجحان کا رخ الٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک واحد ملک نہیں جو بحرانوں کے خبث چکر میں پھنسا ہوا ہے، بہت سے ملک ایسے ہی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور مزید طاقتور ہو کر دوسروں کے معاملات کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان ابھی تک اپنے بہت سے بنیادی مسائل حل نہیں کرسکا ہے۔ یعنی عوام سے متعلق، ان کے بچوں کی زندگی اور معاشرے کی آئندہ صورت سے متعلق مسائل، جو مسائل عوام سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے قریب ہیں، ان کے حل کے لئے انہیں عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ محمد علی جناح نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں عوام کی منتخب کی ہوئی حکومت اور دستور ہوگا ، یہ وعدہ ابھی پورا ہونا باقی ہے۔ ہماری مشکلات اس وقت تک ختم نہیں ہونگی جب تک اس ملک کے عوام آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے، موجودہ تعطل کو مزید جوڑ توڑ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، اگلا قدم ماضی کی غلطیوں کو دور کر کے ہی اٹھانا پڑے گا۔ ‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کے آخری جملوں پرغور کرو، جانو اور سمجھو یعنی ’’ہماری مشکلات اس وقت تک ختم نہیں ہونگی جب تک اس ملک کے عوام آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے۔ موجودہ تعطل کو جوڑ توڑ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، اگلا قدم ماضی کی غلطیوں کو دور کر کے ہی اٹھانا پڑے گا‘‘ اور آپ اس مفکر قائد کے ان وژنز کے بجائے پنجاب میں ’’بربادشدہ پارٹی‘‘ (جس میں یقیناً سرمایہ داروں) اسٹیبلشمنٹ، دائیں بازو کے رجعت پسند قلمکاروں، ضیا ءالحق اور بین الاقوامی سامراج کا کردار شاید 100فیصد تک بھی کہا جاسکتا ہے) کو مضبوط ذات کے ٹھکانوں،پیری مریدی کے مراکز، سرداری کے قلعوں اور چودھراہٹ کی وساطت سے ’’پنجاب میں بحال‘‘ کرنے نکلے ہیں، آپ ’’بلاول کو وزیراعظم بنا کر دکھائوں گا‘‘ اور میاں صاحب! آپ کو اسٹیٹ بھی نہیں لینے دونگا، جیسی گفتگو کرتے ہیں، کیا اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی اپروچ کی کوئی جھلک موجود ہے؟ کیا ان دو باتوں سے عوام کے دکھوں کی ترجمانی اور علاج کیا جارہا ہے؟ کیا منتخب وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرنے کا ثبوت ہے یا انہیں دہرانے کا اصرار؟ کیا بھارت اور پاکستان کے مابین ’’تصادم‘‘ کی تائید پاکستانی عوام کا سندیسہ ہے یا قوت کے مراکز کے آگے جھولی پھیلانا؟ کیا لوگ اندھے ہیں؟



.
تازہ ترین