• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس بیدردی اور بے رحمی سے مشال خان کو شہید کیا گیا وہ اپنی نظیر کا نہ پہلا اور نہ ہی آخری واقعہ تھا: اس سے پہلے بھی مذہب اور فرقہ پرستی کے نام پر بے گناہ لوگوں کو جلایا اور قتل کیا گیا ہے۔ ابھی چند روز قبل حب میں مشتعل مجمع ایک ہندو کی جان لینا چاہتا تھا۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر اس طرح کی قتل و غارت گری اکثر ہوتی رہی ہے۔ لیکن ہندوستان میں بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں گائے کے محافظوں نے دو مسلمان نوجوانوں کو قتل کردیا۔ ہندوستان میں بھی تنگ نظر مذہبی قوم پرستی کی آگ اقلیتوں کے دروازوں پر روز دستک دیتی ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی مذہب، قوم اور نسل پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ فرانس میں فاشسٹ نظریات کی علمبردار میرئین لی پن الیکشن تو ہار گئی ہیں لیکن یہ بھی ثابت کر گئی ہیں کہ فرانس میں عدم برداشت اور تنگ نظری بڑھ رہی ہے۔ غرضیکہ جو کچھ مردان اور حب میں ہو رہا ہے وہی کچھ ہندوستان، یورپ اور امریکہ میں ہو رہا ہے۔ ایک نئی طرز کی قدامت پرست ذہنیت چاروں طرف پنپ رہی ہے۔ اس طرح کی ذہنیت کے پیدا ہونے میں کونسے عوامل ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟
پاکستان میں جب اس موضوع پر بحث ہوتی ہے تو جنرل ضیاءالحق پر سارا ملبہ ڈال دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور مذہبی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے عوامل نے تنگ نظری اور تعصبات کو ہوا دی ہے لیکن اگر ان عوامل کو بنیادی وجوہات تسلیم کر لیا جائے تو پھر ہندوستان اور باقی دنیا میں اسی طرح کے نظریات کی فراوانی کی کیا توجیہہ دی جائے؟ ہندوستان میں تو ضیا الحق جیسا حکمران نہیں آیا، بلکہ ہندوستان میں تو کبھی فوجی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی اور جمہوریت کا عمل تسلسل سے جاری رہا ہے۔ دنیا کے باقی ممالک جہاں تنگ نظر قوم پرستی کے نظریات پھیل رہے ہیں بظاہر پاکستان سے بالکل مختلف ہیں: ان میں افریقہ کے قبائلی سماج بھی ہیں اور امریکہ جیسے صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک بھی۔ پاکستان میں بھی مذہبی سیاست کا بیج ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں بویا گیا تھا۔ ہندوستان کی مثال ہمارے لئے مقدم ہے کیونکہ وہ ہمارے ہی علاقے اور تہذیب کی داستان ہے۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد جواہر لال نہرو کی زیر قیادت سیکولر حکومت قائم کی گئی۔ تعلیم کے نصابوں میں بھی سیکولرازم پر خاص توجہ دی گئی۔ زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداروں کا بھی خاتمہ کردیا گیا جو کہ پاکستان میں نہیں ہوا: پاکستان میں جاگیرداری نظام بھی قدامت پرستی کو جلا دیتا رہا ہے۔ اگر ہندوستان میں ہر سطح پر سیکولرازم کا دور دورہ تھا، تعلیمی نظام میں بھی سیکولر نظریات کا پرچار کیا جاتا تھاتو تنگ نظر قوم پرستی کا بیانیہ کیسے وجود میں آیا؟ ہندوستان میں نہ کوئی مارشل لا لگا اور نہ ہی جاگیرداروں کو اپنی کہنہ سیاست کو عوام پر ٹھونسنے کا موقع ملا تو پھر راشٹریہ سیوک سنگھ کی انتہاپسندانہ سوچ کیسے بھارتی جنتا پارٹی کی شکل میں ملک پر حاوی ہو گئی؟ اگر مختلف سیاسی ماحول کے باوجود پاک ہند سرحد کے دونوں طرف ایک ہی جیسی ذہنیت ستر سالوں میں پیدا ہوئی ہے تو اس کے کیا اسباب ہیں؟
پاکستان میں دانشور خواندگی کی شرح کے کم ہونے کو بھی مذہبی بنیاد پرستی کا سبب گردانتے ہیں۔ کچھ تبصرہ نگار تعلیمی نصاب کے مذہبی ہونے کو تنگ نظر مذہبی سیاست کی وجہ گردانتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ہندوستان میں تو تعلیمی نصاب سیکولر تھا پھر وہاں مذہبی انتہا پسندی کو کس وجہ سے بڑھاوا ملا؟ امریکہ میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے تو وہاں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے متعصب اور تنگ نظر سیاست دان کو کیوں مقبولیت حاصل ہوئی؟ بر سبیل تذکرہ تقریباً تمام عرب ممالک میں خواندگی کی شرح بہت بلند ہے لیکن وہ پھر بھی قدامت پرستی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواندگی کی شرح کا جدیدیت اور وسیع النظری سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ تعلیمی نظام کا مذہبی یا سیکولر ہونا بھی ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ جمہوریت کا تسلسل بھی انسان پرست معاشرے کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں معاشی اور پیداواری عوامل معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ ہمیں مختلف طرح کی اکھاڑ پچھاڑ کو دیکھنے کے لئے بدلتے ہوئے معاشی منظر نامے کو بغور دیکھنا ہوگا۔ اگر اس پہلو سے ہندوستان اور پاکستان کی پچھلی چار دہائیوں کی معاشی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو مذہبی تنگ نظری کے پھیلاؤ کی گتھی سلجھائی جا سکتی ہے۔
پچھلی چار دہائیوں میں برصغیر کے معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں۔ ہزاروں سال سے مروج پیداوار ی نظام اورزرعی معیشت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔پاکستان میں زرعی شعبہ قومی پیداوار کا اسی فیصد سے کم ہو کر بیس فیصد پر آگیا ہے۔ لکڑی کے ہل اور بیل کی جگہ ٹریکٹرو ں نے لے لی ہے۔ اول تو یہ ہے کہ زرعی شعبہ قومی پیداوار کا اتنا بڑا حصہ نہیں رہا اور دوم اب کاشتکاری بھی مشینوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ پچھلے تیس چالیس سالوں میں ہزاروں سالوں سے قائم پیداواری نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ اجتماعیت کی جگہ انفرادیت نے لے لی ہے۔ بہت سی دیہی آبادی یا تو شہروں میں منتقل ہو گئی ہے اور یا پھر خود دیہات نے شہروں کا رنگ اپنا لیا ہے۔ فی کس ٹیلی وژن یا موبائل فون کو ہی لیں تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ معاشرہ ایک مختلف منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ نئی تنگ نظر مذہبی قوم پرستی اس نئے پیداواری نظام کا شاخسانہ ہے۔ جب یورپ میں بھی زرعی معاشرے نے اپنے آپ کو صنعتی نظام میں ڈھالا تھا تو بہت سی مذہبی اور قوم پرست جنگوں نے جنم لیا تھا۔ سماجیات کے ماہرین جرمنی میں ہٹلر کی فاشزم کی جڑیں زرعی معاشرے کے صنعتی بن جانے میں تلاش کرتے ہیں۔ فرد کی زرعی معاشرے کی پہچان گم ہو چکی ہے اس لئے وہ اب قدامت پرست مذہبی تصورات کا سہارا لے رہا ہے۔
قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اگر برصغیر میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں نئے بدلتے ہوئے تجارتی اور صنعتی نظام میں گڑی ہوئی ہیں تو امریکہ اور یورپ میں تنگ نظر قوم پرستی کے کیا اسباب ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان ملکوں میں تو بالغ صنعتی معاشرے قائم ہو چکے تھے تو پھر ان میں منفی تبدیلیوں کے پس منظر میں کون سے عوامل ہیں ۔ ہمارے خیال میں مغرب میں بھی قوم پرستی کی بنیادیں معاشی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔ بالغ صنعتی معاشروں میں ایک طرف تو ترقی کی رفتار بہت کم ہو گئی ہے اور دوسرے ساری دنیا سے تارکین وطن ان ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ امریکی صنعتیں کم پیداواری اخراجات کا فائدہ اٹھانے کے لئے چین اور ہندوستان جیسے ملکوں میں منتقل ہو گئی ہیں ۔ اس کے نتیجے میں امریکی (سفید فام) محنت کش طبقے کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ چنانچہ یہ طبقات غیر ملکیوں (بالخصوص تارکین وطن) کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے تنگ نظر قوم پرستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ غرضیکہ بر صغیر ہو یا یورپ اور امریکہ، بدلتی ہوئی معیشتیں منفی افکار کی بنیاد بن رہی ہیں۔



.
تازہ ترین