• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین کی حکمرانی کا خواب ہر پاکستانی کا خواب ہے مگر اب تک یہ خواب پورا نہیں ہوسکا۔ آمریتوں کے دور ایک طرف جمہوری ادوار میں بھی لوگوں کو لوگوں کا حق نہیں مل سکا۔ جب تک لوگوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا، اس وقت تک آئین کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے حق حکمرانی کی بات بعد میں کروں گا پہلے جو اقلیت، اکثریت پر حکمرانی کررہی ہے اس کی بات کرلوں، اس بات سے بھی پہلے پاکستان کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے طرز حکومت کی بات کرلوں کہ یہ حکومتیں کیسے آئین کو پامال کرتی ہیں حالانکہ ان حکومتوں کو راستے دکھانے کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں مگر حکومتیں مختلف حیلے بہانوں سے عدالتوں کو چکر دینے کی کوششیں کرتی ہیں۔
اگرچہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد مرتبہ اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ کم از کم ایسے ادارے جو آئین میں بنیادی ادارے قرار دئیے گئے ہیں ان کے ساتھ تو کھلواڑ نہ کیا جائے۔ اس وضاحت کے باوجود حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں۔ میں یہاں زیادہ اداروں کی بات نہیں کروں گا صرف ایک ادارے کی بات کرلیتا ہوں۔ اس ادارے میں ممبران کی تعداد پوری نہ کرکے اور اس کے سربراہ کا تعین نہ کرکے حکومت وقت آئین کے آرٹیکل 227سے لے کر231کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کے بیس اراکین ہی پورے نہیں کرپارہی، پچھلے کئی مہینوں سے اسلامی نظریاتی کونسل کے صرف دس ارکان ہیں یعنی کونسل کے آدھے اراکین ہی نہیں ہیں، اسی طرح کئی ماہ سے کونسل کا کوئی چیئرمین نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، ا س ادارے کو مکمل نہ کرکے حکومت وقت آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔ یہ تو آئین کی خلاف ورزی ہوگئی ا ب اس کونسل کا حال سن لیجئے، میں ذاتی طور پر فرقوں کا قائل نہیں ہوں، میرے نزدیک مسلمان ہونا ہی اہم ہے اور میرے نزدیک نبی پاکﷺ اور ان کے اہل بیت سے محبت کرنا افضل ترین ہے۔ واضح رہے کہ نبی پاک حضرت محمدﷺ نے اہل بیت سے محبت کے سلسلے میں دو سو سے زائد مرتبہ فرمایا، علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے محبت اہل بیت میں بیان کردہ 175ایسی احادیث کو اکٹھا کیا ہے جو احادیث مبارکہ کی تمام کتب میں موجود ہیں۔
وطن عزیز میں اس حقیقت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ یہاں فرقہ بندی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں پچھلے کئی برسوں سے ایک ایسے مکتبہ فکر کے اراکین کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے جس کی معاشرے میں تعداد بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں حکومتیں سیاسی فلسفے کے تحت کام کرتی رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا رہا، کونسل کے اراکین کے انتخاب کے وقت بھی اس بات کو نظر انداز کیا جاتا رہا کہ یہاں کس مکتبہ فکر کے لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟ اسی تناسب سے اراکین کا انتخاب کیوں نہیں ہورہا ؟ اب بھی وقت ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ آئین کی مسلسل خلاف ورزی سے بچے، اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کی تعداد کو پورا کرے، اس کے سربراہ کا انتخاب کرے۔ کسی کو خوش کرنے کی بجائے اراکین کا انتخاب اس بنیاد پر کرے کہ معاشرے میں کس مکتبہ فکر کے لوگ کس تعداد میں ہیں۔ کم از کم اسلامی نظریاتی کونسل کے اندر تو انصاف کا پہلو نظر انداز نہ ہوسکے۔ ناانصافی تو ویسے بھی نہیں ہونی چاہئے۔ ناانصافی کا دوسرا نام ظلم ہے اور ظلم سے بہتری کی توقع نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دنیا میں آج تک ظلم سے کہیں بہتری نہیں آسکی۔
آئین پاکستان کے پہلے چالیس آرٹیکل لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق ہیں لیکن مجھے اس لئے لکھنا پڑرہا ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتیں لوگوں کو بنیادی حقوق دینے میں ناکام رہیں۔ نہ لوگوں کو روٹی مل سکی، نہ کپڑا ملا اور نہ ہی مکان۔ لوگوں کو مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے تحفے ملے، لوگ ترستے رہ گئے کہ ان کے جان و مال کا تحفظ ہو مگر افسوس پاکستان کو لوٹنے والے ہی پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے، ان حکمرانوں نے لوٹ مار کے اس پیسے سے بیرون ملک دولت کی نشانیاں قائم کیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں بھوک افلاس اور بیماری سے نجات مل جائے گی مگر ایسا نہ ہوسکا، الٹا انہیں بھوک، بیماری، غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور خوف کے جن نے گھیر لیا، لوگوں کے گھروں میں اس جن نے ایسا بسیرا کیا کہ اب نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
لوگ ایک طرف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان کی نسلوں کی بربادی کے لئے بے حیائی اتاری جارہی ہے۔ ملکی ادارے سو رہے ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے کیا کچھ ہورہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک تجارتی ادارےکی بلڈنگ میں ہم جنس پرستی کی ترویج کے لئے مبینہ طور پر ایک دفتر قائم ہوچکا ہے، یہ بھی پاکستانی آئین کی خلاف ورزی ہے۔مخصوص نام سے مختلف دفاتر کو کیلنڈرز بھجوائے گئے ہیں، ان میں کچھ تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں، ان کیلنڈرز کو دیکھ کر والدین بہت پریشان ہیں، کچھ اور نہیں تو حکومت وقت والدین کو اس پریشانی سے نجات ہی دلوادے۔ بلڈنگ کے پہلے فلور پر قائم اس دفتر کو سیل بھی کیا جاسکتا ہے مگر یہ سارا کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب اس ملک میں ادارے کام کررہے ہوں، میں ایک پاکستانی ہونے کے ناتے صرف نشاندہی کررہا ہوں کہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے، صبح و شام آئین کے احترام کی باتیں کرنے والے کہاں سوئے ہوئے ہیں۔ اس پیارے وطن کا حسین خواب دیکھنے والے علامہ اقبالؒ یاد آگئے ہیں کہ بقول اقبالؒ؎
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں



.
تازہ ترین