• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اخبار میں ایک اسامی کے لئے اشتہار شائع ہوا، مندرجات کچھ یوں تھے:’’ڈائریکٹر کی اسامی کے لئے درخواستیں مطلوب ہیں، امیدوار ایم اے پاس ہو، قد پانچ فٹ آٹھ انچ سے زائد نہ ہو، آنکھوں کا رنگ سیاہ ہو اور بال گھنگریالے ہوں، ہونٹ کے اوپری حصے پر تِل کا نشان ہو اور عمر چالیس سے اکتالیس سال کے درمیان ہو۔ خواہشمند افراد اپنی درخواستیں شعبہ ایچ آر میں سات روز کے اندر جمع کروا دیں۔‘‘ توقع کے عین مطابق اشتہار کے جواب میں ایک صاحب کی درخواست موصول ہوئی جو مطلوبہ اہلیت پر پورا اترتے تھے اور اتفاق سے ادارے کے سربراہ کے سالے تھے۔ باقی تاریخ ہے۔
اس لطیفے کا کالم سے تعلق بعد میں واضح کیا جائے گا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں جمہوریت کے خلاف دلائل اکٹھے کرنا ایک ایسا خوشگوار کام ہے جو نہایت سہل بھی ہے اور داد مفت میں ملتی ہے۔ ہر تھوڑے عرصے بعد کچھ قابل احترام دانشوار پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ایک کیس بناتے ہیں اور ان صفحات پر اپنی دانش کے موتی بکھیرتے ہوئے ہمیں یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جسے تم جمہوریت سمجھتے ہو دراصل وہ ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اس مرتبہ ہمارے یہ کرم فرما ایک نئے جذبے کے ساتھ آئے ہیں، دلیل اب کی بار یہ ہے کہ قائد اعظم ملک میں صدارتی نظام چاہتے تھے کیونکہ برطانوی پارلیمانی نظام انگلستان کے سوا کہیں بھی کامیاب نہیں۔ بقول اُن کے یہ بات قائد اعظم نے اپنی ڈائری میں لکھی تھی۔ اب ایسی دلیل کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگ سکتا، جب بانی پاکستان نے ہی کہہ دیا کہ صدارتی نظام ٹھیک ہے تو پھر حجت کیسی۔ بس ایک چھوٹی سی الجھن ہے کہ قائد اعظم جب بھی جلسوں میں تقاریر کرنے گئے یا کسی ریاستی ادارے میں خطاب کیا یا آئین ساز اسمبلی میں تقریر فرمائی تو اتفاق سے یہ ڈائری ساتھ لے جانا بھول گئے اور اپنے خطابات کے دوران پاکستان کے لئے پارلیمانی جمہوری نظام کا ہی اعادہ فرمایا، صدارتی نظام والی بات کہیں نہیں کی! جاہل عوام کی مدد سے گھٹنوں کے بل چلنے والی پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت کے خلاف مزید دلائل جو بازار میں ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں کچھ یوں ہیں کہ اس جمہوریت میں قانون کی حکمرانی نہیں، عوام چونکہ ناخواندہ ہیں اس لئے انتخابات کا عمل ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں، ان میں سیاسی جماعتو ں کے منشور کو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں، الیکشن کمیشن کا نظام بھی ناکارہ ہے کیونکہ اراکین کو دو بڑی سیاسی جماعتیں نامزد کرتی ہیں جبکہ یہ کام عدالت عظمیٰ کو کرنا چاہئے اور پھر حکومت کا چناؤ اور تبدیلی کا عمل بھی درست نہیں کیونکہ عبوری حکومت بھی بدعنوان سیاست دان ہی منتخب کرتے ہیں۔ ہمارے محترم دانشور صرف جمہوریت کی خرابی کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ اس کا حل بھی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق ملک میں صدارتی نظام نافذ ہونا چاہئے، صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے اور چونکہ صدر سمیت تمام اہم ریاستی عہدیداروں کی چھان پھٹک عدالت عظمیٰ کی تشکیل کردہ دانشوروں کی ایک مجلس کرے گی اس لئے صدر ایک نیک اور خدا ترس انسان ہوگا، یوں سمجھئے کہ ایک خیر اندیش آمر، باقی ارکان اسمبلی بھی فرسٹ کلاس ڈگری ہولڈر ہونے چاہئیں، وزراء اپنے شعبے کے ماہر یعنی ٹیکنو کریٹ ہوں اور چونکہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگا کر ہر شخص کے لیے تعلیم لازمی کر دی جائے گی تو پھر کوئی ناخواندہ ہی نہیں بچے گا۔ البتہ....جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک ٹیکنو کریٹس کی ایک حکومت بنا دی جائے تاکہ ایک حقیقی جمہوری نظام تشکیل دیا جا سکے۔کس قدر خوش کُن خیال ہے۔
یادش بخیر! ہم صدارتی نظام کا شوق ایک سے زائد مرتبہ پورا کر کے منہ کی کھا چکے ہیں۔ آخری مرتبہ ہمارے دانشور حضرات کی یہ خواہش پرویز مشرف نے پوری کی تھی، اس آمر کو تو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی عدالت نے عطا کر دیا تھا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، نتیجے میں قانون کی جو بالادستی ملک میں قائم ہوئی اس پر یقیناً ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے عاشقوں کو ایک کتاب لکھنی چاہئے، عنوان میں تجویز کئے دیتا ہوں ’’لاقانونیت کے بطن سے قانون کا جنم‘‘۔ ایک بات جو ہمارے محترم نظر انداز کر گئے کہ صدارتی نظام میں براہ راست صدر کے انتخاب کے نتیجے میں ہمارے ملک میں ہمیشہ پنجابی صدر ہی کرسی پر بیٹھے گا، پاکستان کے وفاق کے لیے یہ بات زہر قاتل ہوگی۔ جن ممالک کی مثالیں ہم دیتے ہیں کہ وہاں صدارتی نظام رائج ہے وہ زیادہ تر homogeneousمعاشرے ہیں جن میں یگانگت پائی جاتی ہے، امریکہ جیسے ملک میں بھی اکا دکا ریاستوں کے علاوہ سوسائٹی homogeneousہے جبکہ پاکستان یا بھارت جیسے ملک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بات جس کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے اور ایران جیسے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ اگر صدر، گورنر اور ریاستی عہدوں کے امیدواروں کو دانشوروں کی ایک مجلس چھان لے تو خود بخود ایسے لوگ انتخابی میدان میں سامنے آ جائیں گے جو باکردار اور باصلاحیت ہوں گے۔ گویا بیس کروڑ عوام کسے منتخب کرنا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ پہلے بیس لوگوں کی مجلس عاملہ کرے گی، یہ البتہ کوئی نہیں جانتا کہ اس مجلس عاملہ کا فیصلہ کون کرے گا؟ غالباً اخبار میں اشتہار دیا جائے گا اور ’’سالوں‘‘ کو بھرتی کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس قسم کی مجالس تھیوکریٹک ریاستوں میں ہوتی ہیں جہاں محدود قسم کی جمہوریت عوام کو خیرات میں دی جاتی ہے اور جہاں چند لوگ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم کا امیدوار بننے کا اہل کون ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ جمہوری ملک میں ایسی مثال نہیں، یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں کہ انہیں کسے منتخب کرنا ہے۔ دراصل پڑھے لکھے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جاہل عوام کے پاس سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، انہیں اپنے برے بھلے کا کچھ پتہ نہیں اسی لئے وہ کرپٹ اور نا اہل حکمرانوں کو ووٹ دے کر اپنے سروں پر سوار کر لیتے ہیں۔ یہی دلائل 1947میں بھی دیئے جاتے تھے، اس وقت مولانا ابولکلام آزاد جیسے پڑھے لکھے لوگ جاہل عوام کو اسی قسم کے مشورے دیتے تھے لیکن ’’جاہل عوام‘‘ نے ان مشوروں کے برخلاف قائد اعظم کو ووٹ دے کر پاکستان بنا دیا۔ آج کچھ لوگ اسی ’’جاہل عوام‘‘ کے سر پر ٹیکنو کریٹس مسلط کرنا چاہتے ہیں، جبکہ پرویز مشرف کی پوری کابینہ ایسے ہی ٹیکنو کریٹس پر مشتمل تھی جنہوں نے ایک غیر آئینی حکمران کا ساتھ دیا اور اس کے دست و بازو بنے۔ عوام چونکہ ان ٹیکنو کریٹس کو منتخب نہیں کرتی اس لئے یہ چاہتے ہیں کہ نظام الٹا کر ان کی شکل و صورت اور اہلیت کو سامنے رکھ کر اخبار میں اشتہار دیا جائے اور پھر ایک مجلس دانشوران قائم کی جائے جس میں بیٹھ کر یہ لوگ بیس کروڑ جاہل عوام کو بتائیں کہ انہوں نے کسے منتخب کرنا ہے اور کسے مسترد۔ معافی چاہتا ہوں جناب مگر پاکستان کے ’’جاہل عوام‘‘ یہ نہیں ہونے دیں گے۔



.
تازہ ترین