• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں اقتدار کی سیاست کے کھلاڑیوں کی بجائے اقتدار سے قطعی لاتعلق اہل شعور کو بھی بھارت کی تیاریوں، پاک افغان صورت حال اور ایران سے ناراضی سے پیدا شدہ جغرافیائی گھیرائو والے ماحول میں پاکستان کے اردگرد بیرونی خطرات کا دائرہ مکمل کرنے کی عملی کوششیں واضح نظر آرہی ہیں تب بھی پاکستان میں اقتدار کے لئے سرگرم سیاستداں ان خطرات سے بے نیاز ہوکر آپس میں ایک دوسرے کے گریبان پکڑے عدالتوں اور میدانوں میں بیانات اور اپنی اپنی تشریحات کا طوفان اٹھائے ہوئے ہیں اور عدالتوں کے فیصلے آنے سے قبل ہی روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں سے باہر عدالتیں بھی لگاتے چلے آرہے ہیں۔ ملک کا مراعات یافتہ اور سیاستداں طبقہ کے علاوہ عام پاکستانی شہری نہ صرف اپنی سیکورٹی، روزگار اور مستقبل کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہے بلکہ اپنی نئی نسل کے لئے کامیابی اور محنت و امید کی لگن کے لئے کوئی زیادہ مثالی شخصیات کے نمونے پیش کرنے میں بھی مشکل محسوس کرتا ہے۔ گزشتہ کالم میں چند ایسے قابل فخر پاکستانیوں کا ذکر کیا تھا جو ہمارے پاکستانی معاشرے کے ہاتھوں اجنبیت کا شکار رہے مگر اپنی محنت، صلاحیتوں اور ذہانت کی بدولت امریکہ و کینیڈا کی ممتاز یونیورسٹیوں میں پروفیسر ایمریٹس، کے مقام پر فائز ہوکر ان ترقی یافتہ اقوام کی نظر میں بھی انتہائی کامیاب، ذہین اور قابل احترام اثاثہ کہلائے۔ لیجئے! آپ ایک حقیقی، عملی، کامیاب اور مطمئن پاکستانی سے ملئے جو امریکہ میں بھی پاکستانی۔ امریکن نسل کے لئے بھی امید، محنت، مستقبل کی تعمیر کے لئے ایک عمدہ مثال ہے۔
فوجی کنٹونمنٹ کی تعمیر سے قبل کھاریاں ایک چھوٹا گائوں تھا۔ کچی گلیوں اور بنیادی انسانی ضروریات کی سہولتوں سے محروم اس کھاریاں نامی گائوں میں پیدا ہوکر یہاں کے پرائمری اسکول میں تعلیم کا آغاز کرنے اور سرکاری ہائی اسکول سے میٹرک کرنے والا نوجوان آصف محمود ایک معمولی گھرانے کا فرد تھا اور ہاسٹل کے لئے حالات و انتظامات اور وسائل ناکافی مگر تعلیم حاصل کرنے کا شوق اور لگن بہت زیادہ تھی لہٰذا گائوں کھاریاں سے جی ٹی روڈ پر زمیندارہ سائنس کالج گجرات میں پڑھنے کے لئے 21میل یعنی 34کلومیٹر یعنی 68کلو میٹر روزانہ آنے جانے کا سفر بس سے کرنا پڑتا۔ لیکن کچی گلیوں اور کھلی نالیوں والے گائوں کھاریاں میں بارشوں کے موسم میں زندگی کو صبر و شکر اور محنت و لگن کے ساتھ گزارنے والے آصف محمود کے لئے اس دور کے جی ٹی روڈ پر کسی پرانی بس میں روزانہ 68کلو میٹر آنے جانے کا سفر معمول کا کام تھا۔ صرف اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ اپنے حالات کے تقاضوں کے تحت انہیں اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا لیکن تعلیم اور زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا جذبہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اپنے تعلیمی ریکارڈ کے باعث کراچی کے سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ رہائش کی تلاش میں ابتدائی بارہ دنوں میں آٹھ راتیں کراچی کے مختلف علاقوں میں سونا پڑا۔ بالآخر ہاسٹل میں جگہ ملنے پر یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ تعلیم میں ایک بڑے تعطل کے بعد میڈیکل تعلیم شروع کرنے والے کھاریاں کو خیرباد کہہ کر کراچی آنے والے آصف محمود نے مشکلات کے باوجود اپنی محنت اور عزم کے ساتھ 1987ء میں ایم بی بی ایس کرلیا اور پھر زندگی کے اگلے چیلنجزکا سامنا کرنے کے لئے نئے عزم نئے ٹارگٹ اور نئے راستے تلاش کرنے لگا۔ پھر وہ امریکہ کے لئے تیاری کرکے یہاں پہنچا ، ایک غیرملکی میڈیکل گریجویٹ سے امریکہ میں لائسنس یافتہ ڈاکٹر بننے کے سفر میں مصروف ہوگیا۔ اس عرصہ میں والد کے سائے سے محروم ہوگیا جو آصف محمود کو زندگی کی جدوجہد میں حوصلہ دیتے رہےتھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور مادی زندگی آسان ہونے لگی تو کیلیفورنیا میں ان کے ساتھ رہائش پذیر والدہ ضعیفی اور عدم یادداشت کا شکار ہوگئیں۔ اپنی میڈیکل پریکٹس امریکہ میں چھوڑ کر اور اپنی فیملی اور بچوں کے لئے تمام انتظامات کرکے اپنی ماں کو لے کریہ کہہ کر پاکستان آگیا کہ والدہ کی بقیہ حیات تک وہ اپنی ماں کی خدمت میں تمام وقت پاکستان میں گزارے گا۔ اور عملاً بھی آصف محمود نے یہی کیا۔ والدہ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ کیلیفورنیا واپس آگیا اور اپنی فیملی کے ساتھ زندگی کے عمل میں شریک اگلی منازل طے کرنے لگا۔ ممکن ہے کہ آپ نے اس نوعیت کی کہانیاں قصے پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کے علاوہ عملی زندگی میں بھی کچھ حقائق دیکھے ہوں لیکن آصف محمود کی زندگی اور جدوجہد کا اگلا مرحلہ اس سے بھی زیادہ بامعنی اور بلند ہمتی کا مظہر ہے۔ میری نظر میں کھاریاں والے آصف محمود کی یہ جدوجہد ہماری نئی نسل کے لئے نہ صرف ایک اچھا ’’رول ماڈل‘‘ فراہم کرتی ہے بلکہ امریکہ میں پلنے والی پاکستانی امریکن نسل کے لئے بھی ایک فخریہ مثال یوں ہے کہ یہ ڈاکٹر آصف محمود نہ صرف حالیہ امریکی صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں رجسٹرڈ ڈیموکریٹ کے طور پر ہیلری کافرنٹ لائن حامی تھا بلکہ امریکہ بھر میں ہیلری کی انتخابی مہم کے لئے لاکھوں ڈالرز کی فنڈ ریزنگ کر کے تمام پاکستانیوں سے بہت آگے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کا منظور نظر ہے۔ اس نے لاکھوں ڈالرز کے انتخابی فنڈ ہیلری کلنٹن کے لئے جمع کئے لیکن اس نے دیگرحامیوں کی طرح ہیلری کی کامیابی کی صورت میں کسی عہدہ کے لئے اپنا ’’بائیو ڈیٹا‘‘ تک نہیں بھیجا حالانکہ امریکی سیاست میں حامیوں کا بائیو ڈیٹا پہلے سے بھیجنے کا معمول ہے۔ جی ہاں! گائوں کھاریاں میں پیدا ہوکر سرکاری اسکولوں اور عام کالج سے مذکورہ بالا حالات میں تعلیم مکمل کرکے ڈاکٹر آصف محمود بننے والا یہ پاکستانی امریکن اب اپنی ریاست کیلیفورنیا کے لیفٹنٹ گورنر کے انتخابی عہدے کے لئے بڑے منظم انداز میں امیدوار ہے۔ اور ڈیموکریٹک پارٹی سے نامزدگی اور حمایت کے امکانات بھی خوب روشن نظر آتے ہیں۔ وہ غیرمسلم اکثریت والے امریکہ میں انسانی خدمت، محنت و لگن کے بل بوتے پر ایک انسان اور پاکستانی امریکن کے طور پر یہ الیکشن لڑ رہا ہے۔ کھاریاں سے کیلیفورنیا لیفٹنٹ گورنر کے الیکشن کا سفر اختیار کرنے والا ڈاکٹر آصف محمود آج بھی اپنے ماضی اور جدوجہد کو عاجزی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اپنی دولت اور ارادوں میں کامیابی کو اپنے بزرگوں اور والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ نیویارک میں ’’امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی‘‘ نامی تنظیم کے اجتماع میں ایک موثر تقریر میں ایک حوالہ سنا اور میں نے اس بارے میں تفصیل اور تصدیق چاہی تو آج کے دور میں دنیاوی کامیابیوں کے تمام لوازمات حاصل کرنے والا آصف محمود کسی تکبر کی بجائے سادگی کے ساتھ سب کچھ بیان کرگیا۔ اس نے لیفٹنٹ گورنر کا الیکشن اور نامزدگی صرف پاکستانی امریکیوں کے ووٹوں سے نہیں بلکہ سیاہ فام، گورے، لاطینی، مختلف مذاہب و نسل کے رجسٹرڈ امریکی ووٹرز کے ووٹوں سے جیتنا ہے۔ اسی لئے وہ مذہب، رنگ و نسل کی وابستگی سے بالاتر ہوکر کیلیفورنیا کے امریکیوں کی نمائندگی کے لئے الیکشن لڑ رہا ہے۔ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ممتاز سیاسی مخالفین کی لسٹ میں ہے مگر وہ ارادے، اعلیٰ سوچ اور اعلیٰ پلاننگ کے معاملات میں امریکہ کی انتخابی سوچ اور اسٹرٹیجی کے تقاضوں سے واقف ایک سنجیدہ اور عملی امیدوار دکھائی دیتا ہے۔ جی ہاں! کھاریاں سے کیلیفورنیا تک دشواریوں سے بھرپور سفر کرنے والے ڈاکٹر آصف محمود ہمارے لئے اور ہماری نئی نسل کے لئے ایک اچھا ’’رول ماڈل‘‘ اور مثبت تصویر ہیں۔



.
تازہ ترین