• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں سید نصیر شاہ کے لئے کلیم اللہ ملک کے میڈیکل اسٹور سے زنجی بیرس کی بوتلیں لے کر گانگوی مسجد کے زیر سایہ دانش گاہ ِ میانوالی میں جایا کرتا تھا تو کبھی کبھار آتے جاتے ہوئے ایک نوجوان سے مُلاقات ہو جاتی تھی ۔ مسجد سےمتصل گھر سید نصیر شاہ کا تھا اور مسجد کے سامنےفیروز شاہ رہتے تھے ، یہ نوجوان اُس گلی میں فیروز شاہ سے ملنے آیا کرتا تھا ۔ فیروز شاہ اور سید نصیر شاہ دونوں قریبی رشتہ دار تھے ،مگر دونوں کے درمیان تعلق واجبی سا تھا سو میرےاور اُس نوجوان کے درمیان بھی ایک واجبی سے تعلق نے کروٹیں لینی شروع کیں اس نوجوان کا نام مظہر نیازی تھا ۔ رفتہ رفتہ شاعری کے میدان میں ہم دونوں نے اپنی ‎اپنی صفیں درُست کیں ۔ ‎مظہر نیازی کی صفوں میں کھڑے ہوئے چہرے یاد آ رہے ہیں ۔ سب سے تابناک چہرہ شرر صہبائی کا تھا ۔ انجم جعفری بھی بہت نمایاں تھے ۔ رئیس احمد عرشی اور ابولمعنی عصری کی گھومتی ہوئی آنکھیں مجھے اب بھی اپنے وجود میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں ۔ ‎میں شاعروں کے اس انبوہ میں جب مظہر نیازی کو دیکھتا تھا تو سوچتا تھا کہ یہ نوجوان جہاں کھڑا ہے یہ اُس کی جگہ نہیں ، اِسے تو میرے حلقےمیں ہونا چاہئے تھا ، یہ کہاں اہلِ زبان کی شین اور قاف میں الجھ کر رہ گیا ہے میں نے کئی بار کوشش بھی کی مگر ناکام رہا ، لیکن میں اب سمجھتا ہوں کہ اہل ِ زبان کی صحبت نے مظہر نیازی کو جو کچھ دیا ہےوہ شاید اُسے میرے حلقہ احباب سے نہیں مل سکتا تھا میرے حلقہ احباب میں بابائے تھل فاروق روکھڑی تھے ، افضل عاجز تھا نذیر یاد تھا سلیم احسن اور منور ملک تھے سلیم شہزاد تھا-محمد محمود احمد ہوتا تھا ۔ اچانک ایک دن میں نے محسوس کیا کہ مظہر نیازی نے غیر محسوس انداز میں میرے تمام دوستوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے انوارحسین حقی کویہ ساری باتیں بہت اچھی طرح یاد ہونگی پھر میں نے اور افضل عاجز نے میانوالی چھوڑ دیا شررصہبائی انتقال کر گئے ۔انجم جعفری نے ایک نئی ہجرت کرلی ۔فیروز شاہ دنیا چھوڑ گئے ۔سلیم احسن نے فقیری اوڑھ لی ۔فاروق روکھڑی نے بھی رنگ و نور کا میانوالی چھوڑ کر شہر خموشاں میں ڈیرہ لگا لیا ۔ابوالعمانی عصری بھی دنیا سے چلے گئے ۔محمود نے بھی اچانک ساتھ چھوڑ دیا۔ادب کے والی میانوالی سید نصیر نے بھی تخت خالی کر دیااس دور کے کچھ شاعر زندہ رہے مگر ان کی شاعری مر گئی یعنی ہم نے نہیں قدرت نےمظہر نیازی کو دبستان میانوالی کی سرداری عطا کی سو آج سے آپ کو دبستان میانوالی کا سردار مظہرنیازی کو تسلیم کرلینا چاہئے جناب نذیر یاد سے عر ض ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو- سو میں اس وقت میانوالی کے ادب کی دستار مظہر نیازی کے سر پر رکھنے کا اعلان کرتا ہوںیہ تھی میانوالی کی ادبی سرداری ۔اب آتے ہیں میانوالی کی سیاسی سرداری کی طرف۔یہ میانوالی کی خوش قسمتی ہے ملکی سیاست کے سردار عمران خان میانوالی کے سیا سی سردار بھی ہیں انھوں نے آگے یہ سرداری دو شخصیات کو تفویض کر رکھی ہے ان میں امجد خان ہیں اور دوسری عائلہ ملک ہیں ن لیگ کی طرف سے میانوالی کے سیاسی سردار عبیداللہ شادی خیل ہیں انہوں نے اپنے حلقے میں بہت کام کرائے ہیں مگر ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہی حلقہ عمران خان کا بھی ہے اگر عمران خان اس حلقہ میں اپنی بجائے کسی اور کو امیدواربنائیں گے تو عبیداللہ شادی خیل کی فتح یقینی ہو گی ۔ن لیگ کی ایک اور شخصیت بھی ان دنوں بہت سرگرم ہیں اسکا نام علی حیدر نور ہے مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے سبب اگر ایم این اے کی نشست پرامجد خان اور علی حیدر آمنے سامنے نہ ہوئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ علی نور میانوالی سےمسلم لیگ ن کو ایم این اے کی ایک نشست نکال کر دے سکتا ہے دوستو آپ سوچ رہےہونگےکہ ابھی موسم نہیں آیا اور میں نے انتخابی سیاست پر گفتگو شروع کر دی تواتنی سی عرض ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں کی حرکات وسکنات پر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ تینوں پارٹیوں نے اچانک انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اسکا مطلب یہی ہے کہ انتخابات نزدیک ہیں ویسے بھی 2018 اور ہمارے بیچ صرف آٹھ ماہ کا دورانیہ ہے ایک اور بات بھی میانوالی کے حوالے سے بڑی اہم ہے کہ نون لیگ کی حکومت نے میانوالی کےلئے کیا کیا ہے -بظاہر تو کچھ ایسا نہیں آتا انفرادی کام یقیناً ہوئے ہونگے مگر اجتماعی سطح کا کوئی کام اس علاقہ میں نہیں ہوا جس کا کریڈٹ ن لیگ لے سکے-اگر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف میانوالی آئیں اورمیانوالی کےلئے خصوصی پروجیکٹ کا اعلان کر جائیں تو ممکن ہے میانوالی میں نون لیگ کے حالات بہترہوجائیں ورنہ میانوالی تحریک انصاف کا شہر ہے
(یہ کالم میانوالی مظہر نیازی کے ساتھ منائی جانے والی شام میں پڑھا گیا)



.
تازہ ترین