• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک صاحب بس میں کہیں جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک نوعمر لڑکا بیٹھا تھا۔ لڑکا چاکلیٹ پر چاکلیٹ کھائے جا رہا تھا۔ ایک کھائی، دوسرا کھائی، تیسرا کھائی۔ جب وہ چوتھی چاکلیٹ کھانے لگا تو ان صاحب نے لڑکے سے کہا ’’زیادہ چاکلیٹ کھانے سے دانت خراب ہو جاتے ہیں‘‘۔ لڑکے نے ان کی طرف دیکھا اور بولا ’’میرے دادا کا انتقال ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوا تھا‘‘۔ ان صاحب نے حیرت سے پوچھا ’’وہ چاکلیٹ کھاتے تھے؟‘‘ ’’وہ دوسروں کے کام میں دخل نہیں دیتے تھے۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ دوسروں کے کام میں دخل دینے کے بارے میں ایک محاورہ بھی ہے۔ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘۔ یہ انسانی معاشرے کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ ہر ایک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ دوسروں کے کام میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ یہ کلیہ افراد کے بارے میں بھی ہے، اور اداروں کے بارے میں بھی۔ ہم نے اس کلیہ پر عمل نہیں کیا اور ایک بحران سے دوسرے بحران اور دوسرے سے تیسرے بحران کے چکر میں گھومتے رہے۔ ہماری پوری تاریخ اسی چکر کی تاریخ ہے۔ ہم پچھلے کالم میں اپنی المناک تاریخ کے چند اوراق کھول کر آپ کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ اس چکر نے ہمیں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ اب آپ مانیں نہ مانیں، اسی چکر نے ہمیں ساری دنیا میں تنہا کر دیا ہے۔ ہماری سرحدوں پر کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے لیکن ہمارے حق میں بولنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں مشرقی سرحد پر ہندوستان مستقل گولہ باری کر رہا ہے۔ وہ ہمارے شہریوں کو مار رہا ہے۔ ہماری فصلیں اور ہماری آبادی تباہ کر رہا ہے۔ ہم روزانہ ہی احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے اس احتجاج میں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے۔ ادھر مغربی سرحد پر بھی مار دھاڑ شروع ہو گئی ہے۔ ہم احتجاج کر رہے ہیں کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کے علاقے پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ اور پاکستان کے علاقوں میں مردم شماری کر نے والے عملے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اس احتجاج پر کوئی کان نہیں دھر رہا ہے۔ ہم سے تو ایران بھی خوش نہیں ہے حالانکہ وہ بھی ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہندوستان کشمیری عوام پر کتنے ظلم ڈھا رہا ہے۔ اب تو وہاں چھوٹے چھوٹے بچے بھی پتھر لے کر ہندوستانی فوج کے سامنے آ گئے ہیں۔ لیکن دنیا خاموش ہے۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب بھی ہم ہی دے سکتے ہیں۔ اب لے دے کے ہمارے ساتھ چین رہ گیا ہے۔ وہ بھی ہمارا پڑوسی ہے۔ لیکن اس کا اپنا مفاد ہے۔ مالی اور اقتصادی۔ یہ بات ہم کہہ دیتے ہیں تو اوپر والے ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارا تجزیہ نہیں ہے۔ ساری دنیا یہی کہہ رہی ہے۔
لیکن اس میں ہمارا اپنا قصور بھی تو ہے۔ ہم، یعنی میڈیا والے، جو بڑی حد تک رائے عامہ بناتے ہیں، یہ خلیج بڑھانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ روز شام کے چھ سات بجے سے رات کے بارہ بجے تک ہم ساری خرابی کی ذمہ داری جمہوریت کے کاندھوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔ ہمارے کئی دبنگ اور مشہور و معروف تجزیہ کار منہ بھر بھر کے جمہوریت کو گالیاں دیتے ہیں۔ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر عام لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ ’’یہ جمہوریت نہیں ہے؟‘‘ حتیٰ کہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے ’’اگر یہ جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت پر لعنت‘‘۔ بھلا بتایئے عام آدمی ایسی باتیں سنتا ہے تو کیا سوچتا ہے۔ یہی ناکہ جمہوریت ہماری تباہی کا باعث ہے؟ ایسا کہنے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ جمہوریت کا احسان ہی ہے کہ آپ کھل کر یہ باتیں کر رہے ہیں۔ اگر جمہوریت نہ ہوتی تو کیا آپ ایسی باتیں کر سکتے تھے؟ ہم مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں مثالی جمہوریت نہیں ہے۔ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ آج ہماری جمہوریت جن ہاتھوں میں ہے انہوں نے آمرانہ دور میں پرورش پائی ہے۔ اسی لئے ان کے رویے بھی آمرانہ ہیں۔ وہ جمہوریت کے بنیادی اداروں کو وہ وقعت نہیں دیتے جو ایک سچی جمہوریت میں دینا چاہئے۔ ذرا حساب لگایئے ہمارے وزیر اعظم قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس میں کتنی بار تشریف لے گئے ہیں؟ جب انہیں خود ضرورت ہوتی ہے تو وہ تشریف لے جاتے ہیں، ورنہ وہ ادھر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ کے بارے میں وزیر اعظم کے اسی رویے کی وجہ سے باقی وزیر بھی پارلیمنٹ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ وزیر قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے۔ وہاں ارکان کے سوالوں کے جواب دینے والا کوئی ہوتا ہی نہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی بھی آخر کہاں تک برداشت کرتے۔ انہیں اس پر احتجاج کرنا پڑا۔ دنیا بھر میں جمہوریت کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ پارلیمان کے بالائی ایوان کا صدر احتجاج کر کے باہر چلا جائے۔ جمہوری حکومت کے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جیسی بھی تھی، اس میں بہرحال پارلیمنٹ کا احترام کیا جاتا تھا۔ یوسف رضا گیلانی شاید ہی کبھی پارلیمنٹ کے اجلاس سے غیر حاضر رہے ہوں۔ جمہوریت میں پارلیمان ہی حکومت کی طاقت ہوتی ہے۔ اگر آپ وہ طاقت ہی کھو دیں گے تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو ہی موقع ملے گا اپنی مرضی کرنے کا۔ ہم یہ موقع خود دیتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ حالت تو یہ ہے کہ انتہائی اہم پالیسی امور بھی پارلیمنٹ کے سامنے نہیں لائے جاتے۔ فیصلے جمہوری انداز میں نہیں کئے جاتے۔ اسی لئے کچھ حلقوں اور طاقتوں کو جمہوریت کو بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور تو اور عمران خاں بھی، جو اپنے آپ کو مستقبل کا وزیر اعظم گردان رہے ہیں، پارلیمنٹ کو کوئی وقعت نہیں دیتے۔ وہ بھی پارلیمنٹ میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ عام آدمی بھی یہ ساری حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ اسی لئے وہ بھی ان لوگوں کی باتوں میں آ جاتا ہے جو جمہوریت کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ اور یہی وہ حالات ہیں جہاں غیر جمہوری طاقتوں کو دخل اندازی کا موقع ملتا ہے۔ لیکن صاحب عقل و ہوش اصحاب سے تو یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ منہ بھر بھر کر جمہوریت کو گالیاں دیں۔ ان کا کام تو یہ ہے کہ وہ عام آدمی کی صحیح رہنمائی کریں تاکہ آنے والے انتخابات میں وہ اپنے صحیح نمائندے چن سکیں۔ ایسے نمائندے جو غیرجمہوری طاقتوں کے بجائے جمہوری قوتوں کی بالادستی قائم کریں اور یہ کام عوام کی طاقت کا سہارا لئے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ہی کوئی ہمارے کام میں دخل دینے کی ہمت نہیں کرے گا۔
اب پھر ایک اور وضاحت۔ ہمارے وکیل دوست لیاقت علی نے یاد دلایا ہے کہ مولانا کوثر نیازی کا اخبار ’’شہاب‘‘ ایوب خاں کے دور میں نہیں بلکہ یحییٰ خاں کے دور میں شائع ہوتا تھا۔ اس دور میں بھی اخباروں پر سنسر بلکہ پری سنسر کی پابندی تھی اور اسی وقت اس اخبار میں اداریہ کی جگہ جوتے چھاپے گئے تھے۔



.
تازہ ترین