• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسپینش کمیونٹی کواپنے اسپتالوں میں حکومت کی جانب سے جو طبی سہولتیں میسر ہیں ، وہی سہولتیں تارکین وطن پاکستانیوں سمیت دوسرے ممالک کے امیگرانٹس کو بھی اُسی طرح مہیا کی جاتی ہیں جیسے کہ وہ مقامی افراد ہوں ۔مہنگا ترین علاج معالجہ ،لیبارٹری ٹیسٹ ،ایکسرے ،ہارٹ سرجری ،ہارٹ اسٹنٹ کی تبدیلی ، جگر ، گردے اورآنکھوں سمیت ہرطرح کے آپریشنز بلا معاوضہ کئے جاتے ہیں ۔اسپین براعظم یورپ کا معاشی اعتبار سے امیر ملک نہیں ، لیکن شاید وہاں کی حکومتیں حقوق العباد کو ہی عبادت سمجھتے ہوئے انسانیت کے لئے یہ سب کچھ کر رہی ہیں ۔یہ عبادت تو کئی صدیوں سے جاری ہے لیکن ہم 15سال سے اسپین میں مقیم اِس نیک کام کو ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،ویسے توا سپین کے تمام سرکاری ادارے تارکین وطن کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں لیکن وہاں کے شعبہ طب کی مسیحائی اپنی مثال آپ ہے ۔ کسی بھی قسم کا اور جتنا بھی مہنگا علاج ہو ، مریض کے پاس اسپین میںرہنے کا قانونی اجازت نامہ ہے یا نہیں ؟ مریض تنخواہ دار ہے یا بزنس مین ؟علاج کے اخراجات کون برداشت کرے گا ؟ ایسا کوئی سوال یا ایسی کوئی وجہ مریض کے علاج میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔جبکہ پاکستان کے اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ ایسے سوالات اور وجوہات انتہائی لازمی جزو سمجھا جاتا ہے ،جو مریض اِن سوالات کے جواب مثبت دے دیں وہ علاج کروا لیتے ہیں لیکن بیشتر علاج کی حسرت لئے جہان فانی سےکوچ کر جاتے ہیں ، یہ ہم سب کے لئے لمحہِ فکریہ ہے ۔ہم جب بھی دوسرے ممالک سے پاکستان آئیں تو پولیس تھانوں میں انسانیت کی تذلیل، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ، قانون توڑنا یا اپنے ہاتھ میں لینا ، امن و امان کی کشیدہ صورت حال ، دہشت گردی ، کرپشن اور سرکاری اداروں میںتارکین وطن کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک دیکھنے کو ملتا ہے ،پاکستانی اسپتالوں میں مریض کے معاشی حالات کے مطابق اُس کا علاج کیا جاتا ہے ،غریب مریض لائنوں میں لگے اپنی باری کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں ، سفارش اور رشوت نے اسپتالوں میں ہونے والی مسیحائی کو داغدار کر رکھا ہے ، ایسے حالات و واقعات دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف اسپین کی غیر مسلم حکومت جبکہ دوسری جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ادارے ،یہ کیا چکر ہے ؟ اِن اداروں کا کوئی سربراہ بھی ہے یا نہیں ؟ کون پوچھے گا اور کب ؟ کسی کو کچھ پتا نہیں ،پاکستان کے معاشی حالات دن بدن پستی کی جانب رواں دواں ہیں ، غریب مزید غریب ہو رہا ہے جبکہ امیر طبقہ امارت کی آخری حدوں کو چُھونے میں مصروف ہے۔پاکستان کی دھرتی ہمارا خمیر ہے ،ہم تارکین وطن یہاں اپنوں سے ملنے آتے ہیں ، والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی ،شادی بیاہ میں شرکت اور جائیداد کی خرید و فروخت ہمارے سفر کی عموماً وجوہات بنتی ہیں ۔اِس بار گرمی کے موسم میں پاکستان آنا ہوا ،عجیب معجزے دیکھنے کو ملے ، ایٹمی طاقت پاکستان کو بغیر بجلی کے دیکھا ،قائد اعظم ؒ کے فرمان کام کام اور بس کام کے اُلٹ لوگوں کو بے کار دیکھا ،تعلیم کے حصول اورطبی سہولتوں میں مشکلات، مہنگائی اور لا قانونیت جیسے اژدھے کو پاکستانی عوام کے گرد لپٹے دیکھا اور معصوم بچوں کا غیر محفوظ مستقبل دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ،مایوس ہو کر سامان پیک کیا اور واپسی کا پروگرام ترتیب دے لیا ، اِسی اثنا میں ہمارے دوست یاسین خان کا فون آیا کہ آج تھیلیسمیا ڈے ہے اور یہ دن ہم اُن بچوں کے ساتھ منائیں گے جو اِس بیماری کا شکار ہیں ۔ہم آنے کا وعدہ کر بیٹھے تھے اِس لئے مقررہ وقت پر سندس فائونڈیشن پہنچ گئے جو ایسے مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے ۔ فائونڈیشن میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ، مشیر صحت وزیر اعلیٰ پنجاب خواجہ سلمان بھی موجود تھے ۔یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ تھیلیسمیا بیماری کا آغاز ’’ سائپرس ‘‘ سے ہوا سائپرس ترکی اور یونان کے قریب واقع ہے ۔وہاں اِس لا علاج بیماری کو ختم کرنے کے لئے قانون بنایا گیا ، جس کے تحت شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی کے لئے طبی معائنہ ضروری قرار دیا گیا اس قانون کی وجہ سے آج وہاں تھیلیسمیا کا خاتمہ ہو چکا ہے ،پاکستان میں بھی یہی قانون اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے لیکن یہاں قانون یا تو بنتے نہیں اور اگر بن جائیں توان پر عمل نہیں ہو تا ۔خیر اللہ کرم کرے ہمارے ملک پر، ہم سندس فائونڈیشن میں تھیلیسمیا کے زیر علاج اُن بچوں کو دیکھنے گئے تھے جن کا خون سرخ سیل نہیں بناتا اور انہیں ہر پندرہ دن بعد خون لگایا جاتا ہے،خون لگانے کا عمل بند ہونا بچے کی موت کا اعلان ہوتاہے ، ’’ بیڈز ‘‘ پر تھیلیسمیا کے زیر علاج بچے اپنی آنکھوں میں زندگی کی اُمید کا دیا جلائے خون کی لٹکی بوتلوں کو حسرت و یاس کی تصویر بنے دیکھ رہے تھے ۔ سندس فاونڈیشن پاکستان بھر سے عطیات اکھٹے کرتی ہے اور بلا معاوضہ عطیہ شدہ خون مریض بچوں کو لگایا جاتا ہے ، اِس فاونڈیشن کے چیئر مین محترم منو بھائی سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ، انہوں نے بتایا یہ ضروری نہیں کہ ’’ کزن میرج ‘ ‘ ہی اِس بیماری کا موجب بنے بلکہ شادی کرنے والے کسی بھی لڑکے اور لڑکی دونوں میں اِس بیماری کے جراثیم کا پایا جانا اور شادی سے پہلے اِس کا معائنہ اور تشخیص نہ کروانا شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچوں میں تھیلیسمیا کا باعث بنتا ہے ۔منو بھائی نے بتایا کہ سندس فائونڈیشن کا پلیٹ فارم انہوں نے اپنی والدہ کی دعاؤں اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت منتخب کیا ، یہ فائونڈیشن 19سالوں میں لاکھوں بچوں کو خون مہیا کر چکی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایسی مشینری کا اہتمام بھی کیا ہے جو خون کے سفید خلیوں کو ایک سال تک محفوظ رکھ سکتی ہے ،جو بچے یہاں علاج کروا رہے ہیں اُن میں سے کچھ نے شادیاں بھی کی ہیں اور ازدواجی زندگی کامیابی سے گزار رہے ہیں ، اُن کا کہنا تھا کہ والدین دولت اور عہدے کےلالچ میں بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کرتے وقت تھیلیسمیا کا ٹیسٹ کروانا مت بھولیں تاکہ دنیا میں آنے والے بچوں کا مستقبل تاریک نہ ہو ۔


.
تازہ ترین