• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بین الاقوامی جائزوں میں ملکی معیشت کے حوالے سے مثبت اور منفی دونوں قسم کے رجحانات سامنے آئے ہیں جو پالیسی سازوں کے گہرے غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ مثبت اشارے یہ ہیں کہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی موجود ریٹنگ بی تھری پوزیشن پر برقرار رکھی ہے جس کا سبب یہ بتایا ہے کہ اقتصادی شرح نمو میں بہتری اور مالیاتی خسارے اور افراط زر میں کمی آئی ہے۔ تاہم ادارے نے حکومتی قرضہ گیری اور بیرونی کھاتوں کے دبائو کو پاکستانی معیشت کے لئے خطرہ قرار دیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام معیشت کے لئے چیلنج ہے۔بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کمی، درآمدات بڑھنا اور برآمدات کم ہونا زرمبادلہ کے ذخائر پر منفی اثرات کا سبب بن رہا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ملک پر واجب الادا قرضوں میں 14ارب 80کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ سال رواں کے اختتام پر یہ قرضہ 79ارب ڈالر تک جا پہنچے گا۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے لئے روپے کی قدر میں مزید 50پیسے کمی کر دی ہے جس سے ڈالر کی قیمت 105روپے سے بڑھ کر 105.5روپے ہو جائے گی گویا غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں بیک جنبش قلم 35 ارب ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔ وزارت خزانہ نے اس صورت حال کے پیش نظر تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ بجٹ کے تخمینے ڈالر کی نئی قیمت کے مطابق بنائے جائیں کیونکہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی بھی نئی قیمت کے مطابق ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے ملک کی اقتصادی ترقی پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ اقتصادی اصلاحات میں تیزی آئی ہے ،سرمایہ کاری کا ماحول بہترہوا ہے اور سی پیک پر عملدرآمد سے معیشت مزید مستحکم ہو گی، مگر سیاسی عدم استحکام سمیت بعض اسباب کے معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں، اس لئے حکومت کو نئے بجٹ میں ٹھوس اقدامات تجویز کرنا ہوں گے تاکہ معاشی بہتری کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔

.
تازہ ترین