• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پر ایسا آزمائشی وقت کبھی نہیں آیا۔بحیرہ عرب کے علاوہ ہمارا کوئی ہمسایہ دوست نہیں بچا۔بھارت تو روائتی حریف ہے مگر افغانستان اور ایران سے بھی تعلقات کشیدگی کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں۔کسی کو کوئی پروا نہیں ہے کہ پاکستان تنہاہوتا جارہا ہے۔حالات اب ایسے ہوچکے ہیں کہ افغانستان بھی ہمارے ملک پر حملہ کرنے کی باتیں کررہا ہے۔افغان علاقے سے ہونے والی گولہ باری انتہائی افسوسناک ہے۔ایرانی آرمی چیف نے بھی دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کو دھمکی دی ہے۔ایسی صورتحال ماضی میں کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔آج ہمارے تمام ہمسائے ہمارے خلاف متحد اور ہم تنہا کھڑے ہیں۔ہمیں چین کی دوستی پر فخر کرنا چاہئےجو ہمارا واحد دوست باقی رہ گیا ہے۔لیکن یاد رکھیں کہ وہ وقت دور نہیں جب چین بھی ہم سے محتاط رویہ اختیار کرنے لگے گا۔کیونکہ کمزور ہمسایوں سے کوئی تعلقات نہیں رکھتا اور چین کبھی نہیں چاہے گا کہ ایک پاکستان کے لئے اس کے ایران ،افغانستان اور بھارت سے تعلقات خراب ہوں۔ایک طرف بیرونی صورتحال یہ ہے اور دوسری طرف ہم نیوز لیکس سے باہر نہیں نکل پارہے۔چاروں طرف سے ہم پر حملے کی باتیں ہورہی ہے اور ہم اب تک اس پر بحث کررہے ہیں کہ نوٹیفیکیشن کی زبان مزید سخت ہونی چاہئے تھی۔ایسے معاملات میں کسی کو پھانسی نہیں دی جاسکتی بلکہ صرف ایک مثال بنائی جاتی ہے کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو۔وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جن کی خواہش ہے کہ پرویز رشید یا کسی اور وزیر کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرواکر پرویز مشرف کے آرٹیکل 6کا بدلہ لیا جاسکتا ہے۔جو لوگ آمریت میں جھکنے کے بجائے ٹارچر سیل اور ساری ساری رات تشدد برداشت کرتے رہے،آج وہ ایک نوٹیفیکیشن کے آگے کیسے سر نگوں ہونگے۔نیوز لیکس کی انکوائری اور پھر وزیراعظم کے نوٹیفیکیشن کے بعد جو کچھ ہونا تھا ،ہوچکا ہے۔اب قومی اداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کے مفاد میں آگے کی طرف دیکھیں۔اب وقت آچکا ہے کہ ذاتی اناء سے باہر نکل کر ملک کے مستقبل کے متعلق غور کریں ،وگرنہ حالات ایسی سمت کی طرف جارہے ہیں جہاں بہت جلد یہ کیفیت آنے والی ہے کہ آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی۔
ہمیشہ لکھتا رہا ہوں کہ ہمسائے کبھی بھی تبدیل نہیں کئے جاسکتے ۔جیسے بھی حالات ہوانہی ہمسایوں سے گزارا کرنا پڑتا ہے۔مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران خارجہ پالیسی کبھی بھی اسلام آباد کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ہمیشہ حالات کشیدہ کئے جاتے ہیں اور پھر سیاسی قیادت کو آگے کردیا جاتا ہے۔دنیا اپنے دھائیوں پرانے اختلافات ختم کرکے آگے بڑھ رہی ہے ،جبکہ ہم دھائیوں پرانے تعلقات ختم کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔واہ رے میرے پاکستان۔۔۔بھارت سے کشیدگی کی وجہ اور مقصد سمجھ میں آتا ہے۔لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت سب کے سامنے ہے ۔لیکن افغانستان اور ایران کا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔صرف یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ بھارت ہمارے خلاف ایران اور افغانستان کو استعمال کررہا ہے۔یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ ایران اور افغانستان کی بھارت سے بہت قربت ہوں لیکن صرف اس ایک بات کو جواز بنا کر تین دشمن پیدا نہیں کئے جاسکتے۔افغانستان کے معاملے میں ہم اگر سوچ بیچار سے کام لیں تو ہر مسئلے کا ایک حل موجود ہوتا ہے۔افغانستان اب2001والا افغانستان نہیں رہا۔امریکی ڈالرز اور بھارتی سرمائے کی آمد کے بعد افغان بھائیوں نے اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم افغانستان کو سبق سکھانے کے چکر میں پاکستان کو مشکل میں ڈالیں۔ایران کے صدر کے ساتھ گزشتہ سال جو کچھ ہم نے کیا،پوری دنیا کی سفارتی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ہم کیا توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے ایک ریٹائر فوجی افسر ایران کے خلاف بننے والے اتحاد کے سربراہ ہوں اور ایران کا آرمی چیف ہمارے حق میں بیان دے گا۔ایران وہ اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ہمیں آج اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔قومی اداروں کے تحفظات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ ایران اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے تو کیا ایسی صورتحال میں ملک کوجنگ کی طرف دھکیلنا مسائل کا حل ہے۔کبھی بھی مسائل کا حل ایسے نہیں نکلتا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسئلے کی جڑ تک پہنچیں۔تمام ادارے اور صاحب الرائے افراد کا کہنا ہے کہ ان تمام سازشوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔میں بھی اس سے اتفاق کرتا ہوں۔لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بیک وقت تین ہمسایوں سے لڑ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ سکیں۔بھارت ہمارے ہمسایوں کو ہمارے خلاف کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔اس میں ہم نے بھی بھارت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ہم لوگ بھارتی منصوبہ بندی کو سمجھ ہی نہیں سکے۔مودی پہلے بھارتی وزیراعظم تھے جنہوں نے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیااور شاہ سلمان نے انہیں سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا۔لیکن بھارت نے سعودی عرب سے بہتر تعلقات میں ایران سے اپنے تعلقات خراب نہیں کئے۔بلکہ دورہ سعودی عرب کے دورے کے فورا بعد چابہار منصوبے کے لئے مزید فنڈز کا اعلان کیا۔ہمارے دشمن اس چالاکی سے چل رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو آپس میں الجھنے میں مصروف ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنی تمام پالیسیوں پر ازسر نو نظر ثانی کرنا ہوگی۔بھارت ہمارے خلاف جو کچھ کررہا ہے اس کا حل اب حکمت سے ممکن ہے۔جب تک ہم مسائل کی جڑ کو نہیں پکڑیں گے ،صورتحال ایسی ہی رہے گی۔ اس کے دو ہی طریقے ہیں۔یا تو براہ راست جنگ کی جائے۔جنگ کسی بھی مسئلے کا دائمی حل نہیں ہوتی۔دائمی حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔آج ہماری سیاسی و عسکری قیاد ت ذہن نشین کرلے کہ جس دن بھارت سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہونگے،ایران اور افغانستان سے مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے۔اس لئے مضبوط اور بہتر پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ تمام ہمسایوں سے تعلقات ٹھیک کریں اور میرے پاکستان کو صرف ذاتی ضد اور اناء کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔

.
تازہ ترین