• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’نیوز لیکس‘‘ کے معاملے کو جس متانت اور دانشمندی کے ساتھ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے طے کر لیا گیا اس پر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت مبارکباد کی مستحق ہے۔ معاملے کا اس طور پر انجام پذیر ہونا بلاشبہ قومی وقار اور جمہوری اقدار کی فتح ہے۔ بعض امور اور مسائل پر اختلاف رائے کا پیدا ہونا فطری امر ہے مگر دنیا بھر میں انہیں مل بیٹھ کر حل کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ جب ادارے ایک صفحے پر ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظر صرف اور صرف ملکی مفاد ہوتا ہے تو باہمی رابطوں، مشاورت اور غور و فکر سے معاملات نہ صرف درست ہو جاتے ہیں بلکہ مزید بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران سیاسی و عسکری قیادت کی دو ملاقاتوں، وزیراعظم نواز شریف کی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے چھ ملاقاتوں اور منگل کے روز منعقدہ خصوصی مشاورتی اجلاس کے بعد ایک پریشان کن صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔ یہ صورتحال 6؍اکتوبر 2016ء کو سیاسی و فوجی قیادت کے ایک اجلاس میں قومی سلامتی امور پر غور و خوض کے دوران کی گئی گفتگو کے بارے میں معاصر انگریزی اخبار میں شائع رپورٹ کے حوالے سے سامنے آئی تھی۔ اگرچہ حکومتی ذرائع اور فوجی حلقے دونوں اس رپورٹ کے مندرجات کو گمراہ کن قرار دیتے رہے مگر یہ بات بہرحال تشویشناک تھی کہ ایک انتہائی حساس مقام پر حساس قومی امور کے حوالے سے کی گئی گفتگو کی رپورٹ، خواہ وہ درست تھی یا گمراہ کن، میڈیا تک کس طرح پہنچی یا پہنچائی گئی جبکہ اس خبر کے مندرجات ایسے تھے جن کے ذریعے پاکستان دشمن قوّتوں کو قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع ملا۔ نیوز لیکس کی تحقیقات کیلئے جسٹس (ر) عامر رضا کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی رپورٹ پر 29؍اپریل کو وزیراعظم ہائوس نے عمل درآمد کی ہدایات جاری کیں مگر ان پر فوج کے تحفظات کے اظہار کیلئے عجلت میں سوشل میڈیا کے استعمال اور الفاظ کے چنائو پر بعض سوالات اٹھے۔ تاہم وزارت داخلہ اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی طرف سے جاری کردہ علیحدہ علیحدہ سرکاری بیانات سے ان میں سے بعض کے تشفّی بخش جوابات مل گئے۔ فوج کے شعبہ تعلّقات عامّہ (آئی ایس پی آر) کے مختصر بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ 29؍اپریل کو جاری کی گئی ٹویٹ کا ہدف کوئی سرکاری شخصیت یا ادارہ نہیں تھا، انکوائری رپورٹ کے پیرا نمبر 18میں جاری کردہ سفارشات کی وزیراعظم کی طرف سے منظوری اور ان پر عملدرآمد کے بعد نیوزلیکس کا ایشو طے ہو گیا اور جاری کردہ ٹویٹ ختم ہو چکا ہے۔ وزارت داخلہ کے بیان میں وزیراعظم کی طرف سے 29؍اپریل کو نیوزلیکس انکوائری کمیٹی کی متفقہ سفارشات کی منظوری دینے کے ذکر کے ساتھ یہ اضافہ کیا گیا کہ حکومت سینیٹر پرویز رشید کے خلاف پہلے ہی کارروائی کر چکی ہے۔ بیان میں کچھ الفاظ اور مختصر جملے بھی شامل کئے گئے ہیں جن کا مقصد بعض افراد کے خلاف کارروائی کی وجوہ کی نشاندہی معلوم ہوتا ہے۔ بدھ کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات میں اگرچہ بہت سے دیگر امور پر بھی تبادلۂ خیال ہوا مگر نیوزلیکس پر ہونے والی مفاہمانہ پیشرفت کا اپوزیشن کے متعدد ارکان سمیت سب ہی نے خیرمقدم کیا ہے۔ جس طرح وزیراعظم نوازشریف نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور خاص طور پر ٹوئٹ پر جس حکمت اور دانائی سے انہوں نے یہ معاملہ فوج کے ساتھ نمٹایا ہے اس سے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ادارے کے متعلقہ شعبے کی غلطی مان کربڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے ان کے اس دعوے کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ انہیں جمہوریت سے عشق ہے۔اس لئے کہ بڑا آدمی وہی ہوتا ہے جو غلطی مان کر اسے دور کرنے کی کوشش کرے اس عمل سے ان کے ادارے کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا ٹوئٹ واپس لینا ان کی جمہوریت پسندی کا ثبوت ہے تاریخ میں ایسی مثالیں ڈھونڈے سے ہی ملتی ہیں ہماری سول و عسکری قیادت نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے جسے بہت سراہا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا امیدہے کہ ہماری قومی قیادت مستقبل میں بھی ایسے ہی جمہوریت دوست رویوںکا مظاہرہ کرےگی۔

.
تازہ ترین