• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سو بعد از خرابی بسیار’معاملہ‘ نمٹادیا گیا۔ نمٹنا ہی تھا۔ ایک معمولی سی بات کا بتنگڑ بنایا گیا تھا، اور میل کا بیل۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا:’’اس کشیدگی میں نقصان پوری قوم کا ہے، پاکستان کا ہے۔ ذرا آس پاس نظر دوڑائیں کیا ہورہا ہے؟ مشرقی سرحد پر بھارت اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئے دن لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے گولہ باری کی جارہی ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آرہی ... دہشت گردی بالکل جڑ سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ فوج اب بھی کئی جگہ مصروف ہے۔ اُسے قوم اور حکومت کی حمایت درکار ہے، بھارت سے نمٹنے کے لئے بھی اور دہشت گردی ختم کرنے کے لئے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب حکومت اور فوج یکسو ہوں۔ کیا اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟ یہ تو سامنے کی بات ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے۔‘‘
شکر ہے بات ان کی بھی سمجھ میں آگئی جنہیں سمجھنے کی ضرورت تھی۔ سول اور فوجی حکمران مل بیٹھے اور معاملات کو مزید بگڑنے سے بچالیا۔ ورنہ یہاں تو صور تِ حال کچھ یوں تھی کہ ہر ایک جلتی پہ تیل ڈال رہا تھا اور گھر پھونک تماشہ دیکھنے والوں کی کسی بھی حلقہ میں کوئی کمی نہ تھی۔ہر سیاستدان اپنا اپنا راگ الاپ رہا تھا، اپنی اپنی بنسری بجا رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، لگتا تھا کہ ابھی میٹھا برس بھی نہیں لگا۔ الیکٹرانک میڈیا کی تو عمر ہی ابھی کیا ہے، پرنٹ میڈیا کونسا پیچھے رہا۔ یوں لگتا تھا کہ ملک میں، اور اردگرد کی دنیا میں، ڈان لیکس کے سوا کوئی اورمسئلہ ہی نہیں ہے جس پر توجہ دی جائے۔ کچھ دل کے پھپھولے پھوڑ رہے تھے، کچھ حسد میں جلے جارہے تھے۔ خبر چھاپنے والوں پر رشک تو کم ہی لوگوں کو آیا ہوگا کیونکہ بعد میں پتا چلا کہ ع
اس میں تھا بہت جاں کا زیاں
اور سول اور فوج کے درمیان کشیدگی بہت سوں کا ایجنڈا بھی رہا ہوگا۔ سب نے اپنا اپنا حصّہ ڈالا۔ مگر بالآخر دانش غالب آئی اور بات کومزید بگڑنے سے بچالیا گیا۔ ایک ذرا مڑ کر دیکھیں، ان دستاویزات کو بنظر غائر دیکھیں جو ایک تحقیقاتی بورڈ کی رپورٹ کے بعد منظر پر آئیں تو لگتا ہے کہ رائی کا پہاڑ بنایا گیاتھا۔ اب جو پریس ریلیز وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ہوئی ہے اس میں اور وزیرِاعظم ہائوس سے جاری ہونے والے 29اپریل کے حکمنامہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک فرق جو نظر آسکا وہ جناب پرویز رشید کا نام نامی تھا۔ وزیراعظم کے حکم نامہ میں ان کا ذکر خیر نہیں تھا۔ جبکہ وزارت داخلہ نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت سینیٹر پرویز رشید کے خلاف جو کارروائی کر چکی ہے اس کی توثیق کی جاتی ہے۔ اس ایک بات کے سوا وزارت داخلہ کی پریس ریلیز میں، الفاظ کے آگے پیچھے ہونے کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔ جناب طارق فاطمی سے ان کا قلمدان پہلے ہی واپس لیا جا چکا ہے، پرنسپل انفارمیشن افسر جناب رائو تحسین کو پہلے ہی ہٹایا جا چکا ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔ تو کیا بات صرف جناب پرویز رشید کا نام نہ ڈالنے پر اتنی الجھا دی گئی تھی کہ مقتدر ادارےنے ایک ٹویٹ کے ذریعہ وزیراعظم کے احکامات کو مسترد کردیا تھا؟ ایسا کونسا جرم انہوں نے کردیا تھا؟ اس کا کوئی تذکرہ نئی پریس ریلیز میں بھی نہیں ہے۔ انہیں ان کے عہدے سے ہٹاتے وقت، جہا ں تک یاد ہے، غیر سرکاری طور پر کہا گیا تھا کہ انہوں نے خبر رکوائی نہیں۔ اب تو انہوں نے خود کہہ دیا ہے کہ یہ ان کا کام نہیں تھا، اور اگر یہ ان کا کام تھا تو جامعات کے شعبہ ابلاغ عامہ میں یہ پڑھایا جائے کہ خبر کیسے رکوائی جاتی ہے۔
وزارت داخلہ کی پریس ریلیز کے بعد کہ آئی ایس پی آر نے اب وہ ٹویٹ بھی واپس لے لی ہے جس کی وجہ سے، اس کے سربراہ کے بقول، فوج اور حکومت کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا تھا، معاملہ اب ’طے‘ ہو گیا ہے، کچھ سوالات وزارت داخلہ کے پریس ریلیز کے بعد اٹھے ہیں جن کا جواب اس ملک کے عوام کالانعام کو درکار ہیں، اور اس کا حل پہلے بھی عرض کیا تھا، اب پھر گزارش ہے، تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت میں ہے، تب ہی پتا چل سکے گا کہ جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے یا دی جانے والی ہے ان کا کیا قصور تھا؟
اس مطالبہ کی وجہ وزارت داخلہ کی پریس ریلیز ہے۔ میرے سامنے اس کا انگریزی متن ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جس نے بھی یہ تحریر لکھی ہے وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس تحریر کی انگریزی خراب ہے، ایک سے زیادہ جگہ۔ اس میں دو جملے ہیں، دونوں میں ایک ایک حرف مفقود ہے۔ ایک ہے
b. Due to reasons referred to previous sections . . .
اس میں referred toکے بعد inہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح
d. Due to reasons referred in previous sections . . .
اس جملے میں referred کے بعد toہونا چاہئے۔
اور یہ اس پریس ریلیز کا آخری جملہ ہے۔
Since action on orders of the Prime Minister has already been completed by the respective Ministries and Divisions, the issue of Dawn Leads stands settled.
اس میں تو دو بڑی غلطیاں ہیں۔ completed کی جگہ complied with ہونا چاہئے اور یہ Dawn Leads کیا ہے؟ جہاں تک ہمیں یاد ہے، یہ Dawn Leaks کا معاملہ تھا۔ تو کوئی اتنی سی بات پر تو توجہ دے نہیں سکا، کہ اتنی اہم دستاویز کی انگریزی ہی درست کردیتا۔ یا کم از کم اس مسئلہ کا نام تو ٹھیک لکھ دیا جاتا جس نے اتنا اُودھم دھاڑ مچا رکھا تھا۔ ان سے مزید کیا توقع کی جائے۔
اس دستاویز میں کم از کم دو جگہ گزشتہ سیکشنز کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کہا یہ گیا ہے کہ گزشتہ سیکشنز میں بتائی گئی وجوہات کی بنا پر. .. آگے، الگ الگ، جناب پرویز رشید اور طارق فاطمی کے خلاف کارروائیوں کا تذکرہ ہے۔ ان سیکشنز میں کیا ہے؟ کسی کو کیا پتہ، سوائے رموز مملکت جاننے والے خسروانوں کے؟ یہی وہ سیکشنز ہیں جن میں اصل کہانی دفن ہے، اور اسی لئے یہ مطالبہ ہے کہ انہیں بھی عوام کے سامنے لایا جائے۔ آخر پتا تو چلے کہ جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے ان کا جرم کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہنا کافی ہے کہ گزشتہ سیکشنز میں بیان کی گئی وجوہات کی بنا پر ہونے والی کارروائی ؟ یا وجہ بیان کرنا بھی ضروری ہے؟ زیادہ تر لوگ اس سے متفق ہونگے کہ وجہ بھی سامنے لائی جانی چاہئے۔ پھر یہ سوال بھی کہ کیا ان سے جواب طلبی ہوئی؟ کیا انہیں اپنی صفائی کا موقع دیا گیا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ یکطرفہ کارروائی ہوئی، انصاف کے مروجہ اور تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف۔ اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے ؟ اگر حکومت اُس رپورٹ کو سامنے لے آئے تو اور بھی بہت کچھ سامنے آئے گا۔ مثلاً یہ بھی سامنے آئے گا، کہ تحقیقاتی کمیٹی میں پیش ہونے والے کم از کم پانچ افراد سے کسی نے اشارتاً بھی مریم نواز کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ ان پانچوں میں وہ سب شامل ہیں جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اُس خبر کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں۔ یہ جو سیاستدانوں اور نام نہاد دانشوروں کی ایک فوج ظفر موج نے ہاہاکار مچائی ہوئی ہے کہ رپورٹ اس لئے منظر عام پر نہیں لائی جارہی کہ اس میں مریم نواز کا نام شامل ہے، انہیں کچھ پتا نہیں ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پتا کرنے کی کوشش بھی نہیںکی ہے۔ ان کی سادگی پہ تو کسی احمق کا بھی مرنے کو جی نہیں چاہے گا۔

.
تازہ ترین