• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ہی ماہ بعد ہم آزادی کی سترویں سالگرہ منائیں گے اور تاریخ ہمارے اعمال کا جائزہ لے رہی ہو گی۔ 14اور 15؍اگست 1947ء کی درمیانی رات جو شب قدر بھی تھی، برصغیر کے مسلمانوں پر آزادی کی حیات بخش گھڑی طلوع ہوئی۔ اس وقت میری عمر سولہ سال تھی۔ تین روز بعد ہم جب عید کی نماز پڑھنے عیدگاہ کی طرف جانے لگے، تو دلوں میں پہلی بار کچھ خوف محسوس ہوا کہ عیدگاہ بستی سے دو کوس کے فاصلے پر واقع تھی اور مشرقی پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ نماز سے واپسی پر ریڈکلف ایوارڈ کا اعلان ہوا، اس میں فیروزپور اور گورداسپور کے اضلاع بھی جہاں مسلمان واضح اکثریت میں تھے، بھارت کی تحویل میں دے دیئے گئے۔ بپھرے ہوئے حالات میں انتقالِ آبادی ایک ناگزیر ضرورت بن چکی تھی، چنانچہ ہمارے شہر سرسہ ہی میں مہاجر کیمپ قائم کیا گیا جس میں ہم ڈھائی ماہ رہے۔ میں اس دوران پاکستان کے سہانے خواب دیکھنے لگا، علامہ شبلی نعمانی کی تصانیف جن میں مسلمانوں کی عظمت و حشمت کی دلربا تصویر کشی کی گئی تھی، اُن کے مطالعے سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی بازیابی کا ولولہ پیدا ہوا۔ ہر نماز کے بعد میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا کہ اس نے ہمیں ایک ایسا خطہ عطا کر دیا ہے جس میں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھ سکیں گے اور ایک ایسا معاشرہ تعمیر کر پائیں گے جو اخوت اور عدل و انصاف پر مبنی ہو گا اور پوری دنیا دیکھ سکے گی کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور وہ اپنی تہذیبی قوت سے انسانی رشتوں میں توازن قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے وہ اثاثے روک لیے جو تقسیم ہند کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ اس کھلی بے انصافی کے خلاف گاندھی جی نے جن کو ان کے پرستار ’باپو‘ کہتے تھے، مرن برت رکھا۔ اس پر آر ایس ایس کے ایک جنونی شخص نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا جس سے پوری دنیا میں بھارت کی بڑی بدنامی ہوئی، تب روکے ہوئے اثاثے بحال کیے گئے۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو پاکستان کو ہر طرح سے زک پہنچانے کی پالیسی پر گامزن رہے۔ کبھی بجلی کی سپلائی بند کر دی اور کبھی نہروں کا پانی روک لیا۔ پھر انہوں نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے جہاں مسلمانوں کی عظیم اکثریت تھی سرینگر میں اپنی فوجیں اُتار دیں جس پر جنوری 1948ء میں پہلی بھارت پاکستان جنگ چھڑ گئی۔ بے سروسامانی کے باوجود پاکستان کی شیردل فوج نے بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسے فائر بندی کے لیے سیکورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
ان تمام آزمائشوں اور خوفناک ریشہ دوانیوں کے باوجود پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو گیا، مگر سیاسی طور پر اس کے مسائل گمبھیر ہوتے گئے۔ بھارت میں 34 برس تک باپ اور بیٹی نے حکومت کی اور انہیں سیاسی ادارے مضبوط کرنے اور جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کا طویل عرصہ مل گیا جبکہ پاکستان میں 1956ء سے 1958ء کے دوران چار وزیراعظم تبدیل ہوئے اور آخر کار سیاسی اور عسکری بیورو کریسی نے اکتوبر 1958ء میں اقتدار کی باگ ڈورسنبھال لی۔ بدقسمتی سے یہ منظر بار بار دیکھنے میں آیا اور اداروں کے مابین شدید تصادم کے باعث سقوطِ ڈھاکہ کا جاں لیوا حادثہ رونما ہوا۔ اس بہت بڑی ناکامی کے باوجود اہلِ پاکستان اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے اور امریکہ اور یورپ میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ جمہوری حکومتوں کو جونہی چند سال کام کرنے کا موقع ملا، تو ملکی حالات بہتر ہونے لگے، مگر سیاسی عمل کے اندر بار بار تعطل پیدا ہو جانے سے ہمارے معاشرتی رویوں میں بے اعتمادی اور بے یقینی کے رجحانات غالب آتے جا رہے ہیں اور تحمل اور بردباری کے اوصاف گہنا رہے ہیں۔
تمام تر خرابیوں کے باوجود گزشتہ عشرے میں پُرامن انتقالِ اقتدار کا حیات آفریں منظر دیکھنے میں آیا اور جمہوریت کے شیدائیوں کے لیے ایک سال بعد پھر وہی منظر آنے والا ہے۔ بدقسمتی سے نئی نسل کے وہ عناصر جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا نہ تاریخ کے مدوجزر کا گہرائی سے مطالعہ کیا، وہ بڑے مقاصد کی تکمیل کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کے بجائے خواہشات کے بے قابو ریلے میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ قدرت ہمیں نئی نئی بلندیوں کو چھونے کے نادر مواقع فراہم کر رہی ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہمارے عہد کا بہت بڑا معاشی عجوبہ ہے جس سے گلشن گلشن پھول کھلیں گے، مگر جن کی آنکھوں کے سامنے جالے تنے ہوئے ہیں، انہیں شاید نظر نہیں آرہے۔ یہ کس قدر دلکشا منظر ہو گا کہ وزیراعظم اپنے چاروں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ آج سے شروع ہونے والے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے کنونشن میں شرکت کے لیے بیجنگ پہنچ رہے ہیں۔ دورے کے دوران سی پیک کے منصوبوں کے جائزے کے ساتھ ساتھ مزید منصوبوں کی منظوری کا بھی امکان ہے جن میں ڈیمز کی تعمیر اور ہائیڈل پروجیکٹس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ریل کے ذریعے گوادر سے ملانے کے لیے بڑے منصوبے پر پیش رفت کا قوی امکان ہے جس کے لیے آٹھ ارب ڈالر چین فراہم کرے گا۔ اس دورے کو ہمارے دفترِ خارجہ نے علاقائی امن کے حوالے سے نہایت اہم قرار دیا ہے کہ چین سے افغانستان میں اپنا مثبت کردار بڑھانے کے لیے کہا جائے گا اور بھارت کو بھی اس دورے سے مضبوط پیغام پہنچے گا۔
یہ واقعہ بھی پاکستان کی علاقائی اور عالمی اہمیت میں بہت بڑے اضافے کا باعث بنے گا کہ وزیراعظم نوازشریف عرب امریکہ سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے ریاض جا رہے ہیں جس میں 22ملکوں کے سربراہ شریک ہوں گے۔ اس موقع پر انہیں امریکی صدر سے پہلی ملاقات کا موقع ملے گا۔ 41ملکی اسلامی اتحاد کے قیام کے بعد ان کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نوازشریف امریکی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت دیں گے اور اس طرح پاک امریکی تعلقات کا ایک خوشگوار باب شروع ہو سکتا ہے۔
یہ امر بھی حددرجہ خوش آئند ہے کہ کئی روز کی کاوشوں اور مشاورت کے نتیجے میں آئی ایس پی آر نے دو روز قبل اپنا ٹویٹ واپس لے لیا ہے۔یوں عسکری قیادت نے بڑے تدبر اور سیاسی قیادت نے غیرمعمولی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور قوم نے سکون کا سانس لیا ہے۔ دراصل ہماری سیاسی بقا دستور کی حکمرانی سے وابستہ ہے اور جب تک ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت مستحکم کرتے جائیں گے، اس وقت تک داخلی سلامتی محفوظ رہے گی۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلانے والے خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو فعال کرنا اور سفارتی ذرائع سے عالمی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔
ہمارے وہ دوست جو ہر شے کو عریاں دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں قانونی اور اخلاقی حدود میں رہنے کا سلیقہ سیکھنا ہو گا۔ کیا جے آئی ٹی کی تفتیش کو الم نشرح کر کے آپ پورے عدالتی نظام کو تہہ و بالا کر دینا چاہتے ہیں! ملک بلندیوں کی طرف پرواز کر رہا ہے اور آپ الزامات کے میزائل داغنے کی مشق فرما رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے صحیح تشخیص کی ہے کہ اقتدار کا شارٹ کٹ تلاش کرنے والے ہی اس ملک میں افراتفری اور ہیجان پھیلا رہے ہیں۔ ایک زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ شہباز شریف ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کی تکمیل میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار چھوٹے کاشتکاروں کے لیے سو ارب روپے بلاسود قرضوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن کے درست استعمال سے ایک سبز انقلاب آ سکتا ہے۔ تعلیم اور صحت پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جا رہی ہے اور پہلی بار ذہین طلبہ کے لیے سترہ ارب کا انڈومنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ پاکستان کے دامن میں بہت خوبصورت پھول ہیں، مگر اُنہیں کوئی دیکھتا تو ہو۔

.
تازہ ترین