• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندی اور اردو کے جھگڑے نے ہندوستان کو تقسیم کیا اور پھر بنگالی اور اردو کے جھگڑے نے پاکستان کو دو لخت کیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ہندوستان نے جمہوریت کو آمریت پر ترجیح دیتے نہ فقط ہم مانیں نہ مانیں خود کو کم از کم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور منوا لیا، بشمول ہندی اور سندھی اپنے جمہور یا عوام کی طرف سے بولی جانیوالی زبانوں یا بھاشائوں کو قومی زبانیں قرار دیتے ہوئے انکو اپنے دستور کا حصہ بنایا۔ اسی طرح پراچین ہندوستان میں زبانیں پنپتی رہیں۔ اگر ہندوستان کشمیر سمیت قومیتوں کا مسئلہ حل نہ کرسکا (باوجود اسکے کہ موتی لال کا نہرو خاندان نسلی طور کشمیری پنڈتوں کا خاندان تھا) لیکن زبانوںکا مسئلہ حل کر کے رکھ دیا۔ مگر چونکہ پیارے پاکستان میں جمہوریت آج تک شاخ نازک پر آشیانے کی صورت رہی تو زبانوں کا مسئلہ کبھی کفر و ایمان کا مسئلہ تو کبھی ’’ملکی سالمیت‘‘ کا۔ لیکن اب لگتا ہے کہ کفر ٹوٹنے لگا ہے اور برف پگھلنے لگی ہے کہ پاکستان میں سینیٹ کی ایک ’’کھڑی ہوئی کمیٹی‘‘ یا اسٹینڈنگ کمیٹی نے پاکستان کی اردو سمیت محض سات زبانوں کو سرکاری حیثیت دینے کا بل منظور کر کے اسے قومی اسمبلی بھجوایا ہے۔ ان زبانوں میں اردو سمیت چاروں صوبائی زبانوں کو قومی حیثیت اور ان سمیت کل 7زبانوں کو سرکاری حیثیت دلوانا بھی شامل ہے۔
اگرچہ اب بھی مذکورہ زبانوں کو حیثیت دلوانے کیلئے ایسے پارلیمانی اقدامات سندھی کہاوت ’’جائی ناہے نانی جے مہانڈے‘‘ ( کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی کہ نانی کی ہم شکل) کے مصداق لیکن سینیٹرز پی پی پی سسی پلیجو، ڈاکٹر کریم خواجہ اور عاجز دھامراہ پر مبارک مبارک کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ حالانکہ جب بھی پی پی پی اسلام آباد میں اقتدار میں ہوتی ہے تو اس نے پاکستان میں زبانوں کی حیثیت دلوانے کی ایسی تحاریک کی پارلیمان میں شکست کا سامان پیدا کیا۔ ہنوز سندھ میں جہاں پی پی پی کا ادا ادی راج ہے وہاں اسکولوں میں چینی زبان کو لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ چینی زبان والے اس آئٹم کے پیچھے کچھ لوگ اسکو آصف علی زرداری کا تدبر کہتے ہیں تو کچھ اسے انکا کاروباری ذہن۔ کہتی ہے خلق تجھے غائبانہ کیا! بہرحال زرداری کا دماغ ہے کوئی نہرو کا دماغ تو ہے نہیں۔ خیر۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ ما قبل بنگلہ دیش پاکستان کے غیربنگالی سول چاہے فوجی حکمرانوں نے سابقہ مشرقی پاکستان توڑنے میں کوئی کار نہ چھوڑی تھی پر بنگلہ دیش بننے کی بنیاد اس دن پڑ چکی تھی جس دن بنگالیوں سے کہا گیا تھا اس ملک کی زبان فقط اردو اور اردو ہوگی۔ اردو سر آنکھوں پر لیکن کس نے جانا تھا ملک میں اردو کی مخالفت اور موافقت میں خون کے دریا بہہ نکلیں گے۔ ڈھاکہ میں بنگلہ کے شہیدوں کا گنج تو کہیں اسی ارض بنگال پر شہدا اردو کی یادگار۔ مگر پالیسیاں بنانیوالے اپنی اپنی ماں بولیاں نہیں انگریزی بولتے رہے۔ انگریزوں کے زمانے سے افسری کی زبان انگریزی تو سولجری یا سپاہ کی زبان آج بھی پنجابی ٹھہری۔
تاریخ بیشمار عجب و غضبناک حقائق و داستانوں کا مجموعہ ہے۔ دیکھیے تو سہی یہ جو حسینہ واجد کی حکومت کے ہاتھوں پھانسی پانے والے جماعت اسلامی کے مولانا محمد اعظم تھے یہ وہ تھے جنہوں نے ڈھاکہ میں ایک بنگالی طالب علم رہنما کی حیثیت سے بنگالی پر اردو کے مسلط کئے جانے کیخلاف احتجاج کیا تھا۔ پھرآپ نے یہ بھی دیکھا کہ ڈھاکہ کے گنج شہدا بنگلہ کی یادگار پر حاضری دینے کو بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والی غیرملکی شخصیات چاہے عام سیاحوں کو بھی سرخ پھولوں سے لدی سڑک پر میل ایک پائوں ننگے چلنا پڑتا ہے۔ بنگالی زبان کا حق تسلیم کروانے والی جدوجہد سے بنگالی ادب و تاریخ کا ایک بڑا حصہ بھرا ہوا ہے۔ کہ یہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد والی بات نہیں بلکہ سات دریا بھرجانے والی بات تھی۔
نیز اسی طرح باقی ماندہ پاکستان میں زبانوں کی تحاریک اور خاص طور سندھی زبان کی تحریک ادبی اور سیاسی تحاریک کا حصہ بنی۔ بلوچی، سرائیکی، پشتو،براہوی اور پنجابی زبانیں بولنے والے لوگوں نے اپنی ماں بولیوں کی حیثیت منوانے کیلئے جدوجہد جاری رکھی جس نے چوٹی کے ادب اور شاعری کو بھی جنم دیا۔ مگر ملک میں آمریت کو جمہوریت پر ترجیح دینے والےحکمران ٹولوں اور انکے مستقل مفادات نے قومی زبان کے نام پر اردو کو ملک کی باقی لسانی اکائیوں کی تحاریک اور حقوق یہاں تک کہ سیاسی مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ایسے میں المیاتی مضحکہ یہ رہا کہ گویا اردو، ونیونٹ اور مارشل لائیں بھی آپ کے عقیدے کے اہم بنیادی ارکان ٹھہرائے گئے اور انکی مخالفت توہین و کفر ٹھہرے۔ اسی لیے تو سندھی شاعر شیخ ایاز نے کہا تھا ’’سندھڑی تیرا نام لیا،گویا کالے ناگ پر پائوں پڑا‘‘۔ وگرنہ ’’جئے سندھ‘‘ یا ’’جوئے بنگلہ‘‘ جیسے خوبصورت نعروں کا مطلب ’’پاکستان مخالف‘‘ ہرگز نہیں تھا۔ شیخ ایاز تو اردو کا بھی اتنا ہی خوبصورت شاعر ہے جتنا سندھی زبان کا۔ کسی وقت جی ایم سید اس ترقی اردو بورڈ کے سیکرٹری جنرل تھے جسکے صدر بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے۔ لیکن مولانا عبدالباری میاں فرنگی محلی کو سندھ بلوانے والے جی ایم سید جو بنگال کے بعد سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان کے بانی تھے اس ملک میں غدار ٹھہرے۔ انگریزوں کے راج میں لڑائی اور راج کرو پالیسی تلے ہندوستان میں ہندی اور اردو کے جھگڑے پر بدنام زمانہ نظم ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ جب انیس سو بہتر میں لسانی کشیدگی کے دوران بدقسمتی سے شائع ہوئی تو اس نے جلتی پر تیل کا کام دیا اس وقت جب سندھی اور اردو بولنے والوں کے بدمعاش گروہوں نے دونوں اطراف سے معصوم لوگوں کے پشتوں کے کشتے لگا دئیے۔ پھر شہدا اردو کی یادگاریں لالو کھیت اور گولیمار میں بنیں تو سندھی بولی کے شہدا کی حیدر آباد، ٹنڈو جام، مورو۔ سندھ کیا ہوا بدایوں بن گیا وہ جو بقول شاعر کچھ اس طرح:
ظالم تیری گلی بھی بدایوں سے کم نہیں
قدم قدم پہ جہاں مزارِ شہید ہے
حکمرانوں نے پاکستان میں زبانوں کے مسئلے کو اپنے طول اقتدار کیلئے استعمال کیا۔ پھر وہ فوجی حکمران تھے کہ تب بھٹو جیسے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر۔ حالانکہ زبانیں تو ہوتی ندیوں کی طرح ایک دوسرے میں مدغم اور ضم ہونے کو۔ اردو سمیت محض سات زبانیں کیوں! وہ بھی جو دور کوہستان میں دریا سندھ کے دائیں کنارے مر رہی ہیں۔ وہ بھی جو چاروں صوبوں میں بولی اور برتی جاتی ہیں سرائیکی، براہوی، برا شوری،وکھی، بلتی، ہزار کی، ہندکو، پوٹھوہاری، کشمیری، جمہوریت کے گلدستے میں سب رنگا رنگے پھول آ سکتے ہیں۔ کہ زبانیں علاقائی نہیں قومی ہوتی ہیں۔ بنائیے انکو پاکستانی آئین میں قومی اور سرکاری زبانوں کے فقرہ جات کا حصہ۔ جب ہندوستان میں زمین نہ ہوتے ہوئے بھی سندھی زبان قومی زبانوں میں شامل ہے جس کا سہرا سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے سر ہے جب وہ انیس سو ستروالے سالوں میں حزب مخالف کے رکن تھے تو پیارے پاکستان میں سندھی سمیت بالا ذکر زبانیں کیوں نہیں؟ کہ اس سے ملک مضبوط ہوتے ہیں جمہوریتیں پنپتی ہیں۔ امریکہ کو ہی دیکھیں جہاں ہسپانوی دوسری زبان ہے اور نیویارک میں بنگالی اور اردو روزمرہ کے سرکاری و عدالتی کاموں چاہے اسپتالوں میں مدد کے طور پر موجود ہیں۔میں سوچ رہا ہوں کاش بنگالیوں کو قتل کرنیوالوں نے وہ بنگالی لوک گیت سنا ہوتا جس میں دریائے جہلم کا ذکر ہے۔

.
تازہ ترین