• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مریم اورنگزیب ضرورت سے زیادہ باصلاحیت ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے لے کر سیمینار تک مخاطب ہونے کا ہنر بہت کم عرصے میں سیکھا ہے۔ اب اگر پرویز رشید کے گناہ بخش بھی دیئے جائیں تو وہ پھر بھی مریم اورنگزیب سے کم باصلاحیت ثابت ہوں گے کیونکہ مریم اورنگزیب کو دونوں تینوں زبانوں پر عبور حاصل ہے، پرویز رشید کو ایسا ملکہ کہاں حاصل؟ وہ ویسے بھی کھدر پوش ہیں۔ پرویز رشید کی طرح مریم اورنگزیب سے بھی میری پرانی جان پہچان ہے، مریم کی والدہ، خالہ اور دیگر اہل خانہ سے میرے قریبی مراسم رہے ہیں۔ ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب اس وقت بھی قومی اسمبلی کی رکن ہیں جبکہ خالہ نجمہ حمید سینیٹر ہیں باقی گلو، گڈو، گپو کے علاوہ حمید صاحب سے بھی اچھی دعا سلام ہے۔ شاید اسی لئے انہوں نے جنگ کے کالم نگار عرفان صدیقی (ٹوکیو) کی کتاب ’’یارانِ وطن‘‘ کی تقریب میں شیلڈ پیش کرتے وقت پہلے مجھے ہاتھ جوڑ کر سلام پیش کیا اور پھر کہا ....’’ہم آپ کو محبت سے شیلڈ پیش کر رہے ہیں....‘‘ ان کے ساتھ سینیٹر مشاہد اللہ خان اور جاپانی سفیر بھی موجود تھے۔ وطن کی محبت میں لکھے گئے کالموں پر گفتگو کرنے والوں میں حنیف خالد، مسعود ملک، افضل بٹ، نواز رضا سمیت کچھ اور لوگ تھے، جب مجھے بلایا گیا تو افشاں ملک کنول رانی کہنے لگیں ....’’ذرا مختصر‘‘.... میں نے مزید اختصار سے کام لیتے ہوئے دو جملوں میں بات ختم کر دی، تقریب کے سب شرکاء حیران رہ گئے، اختر شیرانی کے اشعار سنانے کے لئے میں نے مشاہد اللہ خان سے کہہ دیا، انہوں نے پرانی دوستی کا بھرم رکھا، کہنے لگے کہ ’’....مظہر برلاس کا کہنا میرے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے....‘‘ خیر مشاہد اللہ خان نے جاپان کی یادوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شاعر کے اشعار بھی سنا ڈالے۔ اسی تقریب میں مریم اورنگزیب نے دس مئی کے دن کو بڑا اہم اور تاریخی دن قرار دیا، یہیں انہوں نے اداروں کے میچور فیصلوں کا تذکرہ کیا۔ تقریب کے اختتام پر جاتے جاتے مجھے سے کہہ گئیں’’....ہتھ ہولا رکھو....‘‘
ایک تقریب سے نکلا تو دوسری کا احوال معلوم ہوا۔ کراچی میں ہمارے شاعر اور صحافی دوست فاضل جمیلی کے شعری مجموعے ’’گمنام آدمی کا بیان‘‘ کی تعارفی تقریب ہوئی۔ کراچی کی تقریب پر پیپلز پارٹی کا رنگ غالب تھا، اسلام آباد میں ملک نور نے مسلم لیگ کا رنگ جمائے رکھا۔
دس مئی کا دن واقعی اہم تھا۔ اس روز نیوز لیکس کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ اس تدفین پر سوشل میڈیا میں طرح طرح کے تبصرے جاری ہیں، دل چاہتا ہے آپ کو بھی ان تبصروں میں شامل کروں۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ دو چار تبصرے سنا کر دو مختلف واقعات آپ کی نذر کروں۔ سوشل میڈیا پر ایک اور لطیفہ گردش کر رہا ہے۔ ایک بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے ’’سنا ہے مریخ پر کوئی زندگی نہیں‘‘۔ شوہر بولا ’’میری تے زمین تے وی کوئی نئیں‘‘۔ لگے ہاتھوں دو تبصرے اور سن لیجئے۔ دو آدمی بھاگ کر مسجد میں داخل ہوئے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ فارغ ہو کر ایک بولا، شکر ہے نماز ادا ہو گئی اگر وضو کے چکر میں پڑ جاتے تو نماز رہ جاتی‘‘۔ دوسرا تبصرہ اس طرح ہے ’’ملک میں اتنے گھپلے، سکینڈلز اور کرپشن ہے، جتنا کہا جائے کم ہے، اگر تحقیقات میں لگ گئے تو ترقیاتی کام رہ جائیں گے‘‘۔
اب دو ایسے واقعات جو میرے دو پیارے دوستوں نے بھیجے ہیں۔ پہلا واقعہ دور اکبری میں پیش آیا۔ بیربل اکبر کا وزیر تھا ایک دن اس نے بادشاہ سے کہا دنیا میں 100میں سے 99آدمی اندھے ہوتے ہیں، بادشاہ کو بیربل کی بات پر حیرت ہوئی، غصہ آیا، اُس نے حکم دیا کہ اپنی اس بات کو ثابت کرو ورنہ سزا کے لئے تیار ہو جائو۔ بیربل کہنے لگا، حضور! حکم کی تعمیل ہو گی۔ اگلے دن بیربل ایک عام سڑک پر بیٹھ کر چارپائی بننے لگا۔ اس نے اپنے ساتھ کاپی سمیت ایک شخص کو بٹھایا، جس کا کام تھا کہ اندھوں کی فہرست تیار کرے اور ایک کونے پر درست دیکھنے والے کا نام بھی لکھے۔ کام شروع ہوتے ہی ایک آدمی آیا، کہنے لگا، بیربل کیا کر رہے ہو۔ بیربل نے جواب دینے سے پہلے اپنے معاون سے کہا کہ اس کا نام لکھو۔ پھر اس نے جواب دیا کہ چارپائی بُن رہا ہوں۔ اس کے بعد جو بھی آتا، بیربل سے پوچھتا کیا کر رہے ہو، یہ سب اپنا نام اندھوں میں لکھواتے تھے۔ سہ پہر کو شاہی قافلہ گزرا، بادشاہ نے پوچھا، بیربل کیا کر رہے ہو؟ بیربل کے معاون نے بادشاہ کا نام بھی اندھوں میں لکھ دیا، ابھی بادشاہ وہیں تھا کہ ایک اور آدمی آیا، اس نے پوچھا، خیریت ہے بیربل چارپائی کیوں بُن رہے ہو۔ اس اکلوتے آدمی کا نام دیکھنے والوں میں لکھ دیا گیا۔ اب بیربل بادشاہ کی طرف متوجہ ہوا، کہنے لگا، جناب عالی! فہرست دیکھ لیجئے۔ یہ اندھوں کی فہرست ہے، اس میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔ میں چارپائی بُن رہا تھا، آپ سمیت ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کیا کر رہے ہو، ان لوگوں کو اپنی بصارت پر یقین نہیں تھا اسی لئے مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا کر رہےہو؟ صرف ایک شخص ایسا آیا ہے جسے اپنی بصارت پر یقین تھا، اس نے مجھ سے تصدیق نہیں چاہی بلکہ چارپائی بننے کی وجہ پوچھی۔
دوسرا قصہ کچھ اس طرح ’’....کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ، بڑا دانش مند، مہربان اور انصاف پسند۔ اس کے عہد میں ملک نے بہت ترقی کی، رعایا اسے بہت پسند کرتی تھی۔ اس بات کی شہادت نہ صرف اس زمانے کے محکمہ اطلاعات کے کتابچوں اور پریس نوٹوں سے ملتی ہے بلکہ بادشاہ کی خودنوشت سوانح عمری بھی یہی کہتی ہے۔ شاہ جمجاہ کے زمانے میں ہر طرف آزادی کا دور دورہ تھا۔
لوگ آزاد تھے، اخبار بھی آزاد تھے بس زمانہ ایسا تھا کہ جو چاہیں لکھیں، لوگ جو چاہیں کہیں۔ شرط صرف اتنی تھی کہ لکھنا اور کہنا بادشاہ کی تعریف پر مشتمل ہو، خلاف نہ ہو۔ شاہ جمجاہ کا زمانہ ترقی اور فتوحات کے لئے مشہور ہے۔ اس کے عہد میں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی نظر آتی تھی، کہیں تل دھرنے کی جگہ باقی نہ تھی جو لوگ لکھ پتی تھے، دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی بن گئے۔ حسن انتظام ایسا تھا کہ امیر لوگ سونا اچھالتے اچھالتے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بلکہ بعض اوقات بیرون ملک بھی چلے جاتے تھے، کسی کی مجال نہ تھی کہ یہ پوچھ سکے کہ اتنا سونا کہاں سے آیا اور کہاں لئے جا رہے ہو۔ بادشاہ کو روحانیت سے شغف تھا، کئی درویش اسے ہوائی اڈے پر لینے اور چھوڑنے جاتے تھے، اس کی کامرانی کے لئے چلے کاٹتے تھے، طبیعت میں عفو اور درگزر کمال کا تھا اگر کوئی آ کر شکایت کرتا کہ فلاں شخص نے میری جائیداد ہتھیا لی ہے یا میرے کارخانے پر قبضہ کر لیا ہے، مجرم خواہ بادشاہ کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوتا، وہ کمال سیر چشمی سے اُسے معاف کر دیتے بلکہ شکایت کرنے والوں پر خفا ہوتے تھے کہ عیب جوئی بری بات ہے۔ جب بادشاہ کا دل حکومت سے بھر گیا تو وہ اپنی چیک بکس لے کر تارک دنیا ہو گیا اور پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، اب بھی زندہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب....‘‘
کہانیوں سے کہاں جی بھرتا ہے۔ کہیں دس ارب کام نہیں دکھاتے اور کہیں ایک عرب کام دکھا جاتا ہے۔ جاتے جاتے دو اشعار
آغاز ایک تھا مگر انجام تھے بہت
اس شہر بے کسی کے در و بام تھے بہت
وہ نام کیسے سطوتِ دل سے اتر گیا
وہ نام جس کے واسطے بدنام تھے بہت

.
تازہ ترین