• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا، مگر لکھنے بیٹھا تو دال دلیا ہوہی گیا۔ آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے یعنی بے دلی سی، اداسی سی، بیزاری سی، مگرلکھنے بیٹھ گیا ہوں اور میری بدقسمتی دیکھیں کہ جو موضوع ذہن میں آیا وہ مزید موڈ آف کرنے والا تھا، یعنی ابصار عالم کا وہ واویلا یاد آگیا جو مجھے ان کی پریس کانفرنس میں سننے کو ملا۔ چیئرمین پیمرا وہ اگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے کسی ٹی وی چینل کو بند کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ہم سب وہ فون کال سنتے ہیں جس میں کوئی نامعلوم فرد کہہ رہا ہے کہ اگر تم نے وہ چینل نہ کھلوایا تو کوئی کار بھی تم سے ٹکرا سکتی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ ابصار عالم ریکارڈ کی گئی یہ دھمکیاں اپنی پریس کانفرنس میں سناتے ہیں اور پھر اس کے بعد سے اب تک خاموشی ہی خاموشی ہے، کچھ پتا نہیں چلا کہ چینل کون سا تھا اور اس کے حوالے سے دھمکیاں دینے والی شخصیت کون تھی، چینل کھل گیا یا نہیں کھلا، دھمکی دینے والا کون تھا اس کا کوئی اتا پتا چلا، ابصار عالم کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے گئے یا انہیں اللہ کی امان میں دے دیا گیا۔ صحافیوں کی کوئی تنظیم سامنے آئی اور اس صورتحال کے حوالے سے کوئی مظاہرہ کیا، غالباً کچھ بھی نہیں ہوا، چلیںمیں اکیلا ابصار عالم کی زندگی اور اس کے خاندان کی سلامتی کے لئے دعا مانگتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے صرف دعا ہی کام کرے گی، اگر کرے گی۔
ابصار عالم سے میری ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، دو یا تین دفعہ ملاقات ہوئی اور وہ بھی دوسرے لوگوں کی موجودگی میں، مگر اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہمارے ان صحافیوں میں سے ہیں جو رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں، جو وہی لکھتے اور وہی کہتے ہیں جو ان کا ضمیر ان سے کہلواتا ہے۔ ان کا صحافیوں کے اس ریوڑ سے کوئی تعلق نہیں جو اپنی خوراک کے لئے کھیت کا کھیت اجاڑ دیتے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں تک کو بھگتنا پڑے گا، لیکن رزق حرام شاید نشے کی کوئی قسم ہے کہ جس کو لگ جائے وہ اس سے پیچھا چھڑا نہیں سکتا بلکہ چھڑانا چاہتا ہی نہیں ہے۔
مجھے علم نہیں کہ ابصار عالم کی فریاد کی شنوائی ہوئی ہے کہ نہیں۔ مجھے علم نہیں کہ ہماری عدالتیں ان کیسوں کو ابھی تک التواءمیں رکھے ہوئے ہیں جو پیمرا نے مختلف چینلز کی صحافتی اخلاقی خلاف ورزیوں کے خلاف دائر کررکھے ہیںاور یوںوہ چینلز پوری آزادی سے آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے میں مشغول ہیں۔ میں اس حوالے سے کچھ نہیں جانتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے حالات میں پیمرا کا وجود باقی رہنا چاہئے یا اسے’’کار زیاں‘‘ سمجھ کر بند کردینا چاہئے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جس ادارے کے سربراہ اور اس کے خاندان کی زندگیاں تک خطرے میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اس حوالے سے کوئی خاص حفاظتی ا قدامات بھی سامنے نہ آئے ہوں وہ ادارہ بند ہی کردینا چاہئے۔ ابصار عالم نے اس ادارے کی سربراہی قبول کرکے بہت بڑی قربانی دی تھی کہ اسے اپنی ہی برادری کی چند کالی بھیڑوں سے نبرد آزما ہونا تھا اور انہوں نے ان پر ہاتھ ڈالا اور یوں عمر بھر کی دشمنی مول لے لی ہے۔ بس اتنا ہی، آپ اسے کالم سمجھیں،کالمچی سمجھیں یا دل کا غبار سمجھیں، میرا ضمیر کہتا تھا کہ مجھے اس ضمن میں خاموش نہیں رہنا چاہئے، چنانچہ میں نے یہ چند سطور اپنا فریضہ سمجھ کر قلم بند کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔

.
تازہ ترین