• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سارے ہی ملک اپنی کسی نہ کسی خوبی کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں۔ یورپ کے ملک ڈنمارک نے کہانیاں کہنے کی وجہ سے شہرت پائی ہے۔ وہ جو حکایتیںہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے، وہ جو قصّے شکل بدل بدل کر ہر علاقے میں رائج ہوئے، ان میں سے کتنے ہی ڈنمارک میں کہے گئے۔ کیسی عجیب دھن سمائی ہوگی جب اس ملک کے قصہ گواپنی سرزمین کی لوک کہانیاں اکٹھا کرنے کیلئے شہر شہر اورگاؤں گاؤں مارے مارے پھرتے تھے۔
توسنئے ایک روز کا واقعہ ہے کہ ہم بھی اسی ڈنمارک کی سر زمین پر جانکلے۔ وہاں تین دن گزارے اور کچھ ایسا رنگ چڑھا کہ اب جو بھی لکھ رہے ہیں وہ کہانی بنا جارہا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ذہن حکایتیں تراش رہا ہے۔ ہوا یہ کہ کسی کے جی میں آئی کہ دنیا کے ایک بڑے مفکر،فلسفی، مدبر اور شاعر علامہ اقبال کے موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ بلائی جائے اور علامہ کے نظریات اور خیالات کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے۔ جس کسی کے جی میں یہ بات آئی اس کے ذہن سے یہ خیال بھی گزرا کہ کیوں نہ لندن سے رضا علی عابدی کو مدعو کیا جائے جن کی آواز سنے بہت عرصہ گزر گیا ہے۔ ان کی گفتگو سنی جائے اور اس دور کی یاد تازہ کی جائے جب ریڈیو کی لہروں پر ان کی آواز ملکوں، شہروں، قصبوں اور گاؤں دیہات میں نہیں، گھروں میں چلی آتی تھی اور ان کے ساتھ بے شمار سننے والوں کا وہ رشتہ قائم ہوگیا تھا جو گھروالوں کا اور آپس والوں کا ہوتا ہے۔
وہ اسکینڈی نیویا کے ملکوں کی اقبال اکیڈمی کے بانی غلام صابر صاحب اور ان کے رفقا تھے جو سر جوڑ کر بیٹھے اور اس محفل کی منصوبہ بندی کی جس میں مجھے شاعر مشرق علامہ اقبال کے ذہن کے دریچوں میں جھانک کر ان کے مصرعوں میںپوشیدہ رموز کو پہلے خود سمجھنا اور پھر حاضرینِ محفل کو سمجھانا تھا۔اقبال اور رومی کے بارے میں اکثر کہتا رہا ہوں کہ ان دونوں کو سمجھنے کے لئے انسا ن ان ہی کے ذہن جیسا دماغ کہاں سے لائے۔ میرا عقیدہ ہے کہ مولانا روم اور علامہ اقبال کو سمجھا نہیں جا سکتا، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ ان دونوں کو خود یہی دونوں سمجھیں تو سمجھیں، ہم کو ان کی فکر چھو کر بھی گزر جائے تو غنیمت ہے۔
اس اقبال اکیڈمی کی خوبی یہ ہے کہ یہ کوئی سرکاری ادارہ نہیں بلکہ اقبال کے مداحوں کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے بانی شہر کے نہایت سرکردہ بزرگ جناب غلام صابر ہیں، علم سے گہرا لگاؤ، پڑھنے لکھنے میں وقت گزارنے والے، کئی کتابوں کے مصنف، پانچویں کتاب ابھی چھپ کر تیار ہوئی ہے۔ اوپر سے کمال یہ کہ عمر نوّے سے اوپر ہو چکی ہے اور اس روز اقبال کا کلام ترنّم سے سنایا۔ ان کے ساتھ عاملہ کے سرگرم ارکان ہیں۔ محمد کامل اور عابد علی عابد سارے کام دیکھتے ہیں۔ دوڑ دھوپ کی ذمہ داری پرویز اقبال صاحب کی ہے۔ کوئی تقریب ہو یا کوئی جلسہ، شہر کے دوسر ے سرکردہ افراد بھی ساتھ لگ جاتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان سے چار ہزار میل رہ کر اپنی روایات کی تازہ بستیاں ایسے اہل ِ نظر ہی آباد کر سکتے ہیں۔ اگلے روز اقبال اکیڈمی کا جلسہ تھا۔ موسم شاید ہمیں آزمانے پر تلا ہوا تھا۔ صبح ہی سے بوندا باندی ہونے لگی اور ہوا نے بھی سرد ہونے کے لئے وہی دن چنا تھا۔ ڈر تھا کہ حاضرین ایسی رت میں آنے سے گریز کریں گے۔ ناظم جلسہ عابد علی بضد تھے کہ وہ جلسہ وقت پر یعنی ایک بجے شروع کردیں گے۔ ان کی اس پابندی کی شہرت بھی تھی، بہت سے حاضرین جیسے بھی بنا، آگئے۔ لیکن میرے اصرار پرانہوں نے پندرہ منٹ کی تاخیر کی۔ یہی پندرہ منٹ کمال کے نکلے۔ پور اہال حاضرین سے بھر گیا۔ محمد کامل نے جی لگا کر تلاوت قرآن پاک کی، ننھی ازمہ صابر نے اپنے ہاتھوں سے رومن میں لکھی ہوئی وہ نظم پڑھی جسے پڑھ کر ہم جوان ہوئے تھے:لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری۔ صدف مرز ا نے اقبال کے تصور ابلیس پر بالکل صحیح دورانیے کی تقریر کی اور جس ابلیس کا مکالمہ پڑھ کر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں، انہوں نے وہاں ٹھہر کر سارا معاملہ سمجھایا۔
میری باری آئی تو میں نے شاعری کی تفہیم کے بارے میں اپنی پرانی رائے دہرائی۔ وہ یہ کہ شعر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ شاعر کے جذبات اور احساسات کو سمجھا جائے۔ اس کی اگر یہ شہرت ہے کہ شاعر کے دل و دماغ حساس ہوتے ہیں تو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ شعر کہتے ہوئے اس کے دل اور دماغ پر کیا گزررہی ہوگی۔ میں نے کہا کہ میر اگر خدائے سخن ہیں تو غالب امام سخن ہوئے اور اگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں مضامین غیب سے آتے ہیں تو وہ غلط نہیں کہتے۔سچے شاعر کی یہی شان ہوتی ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہئے۔ اس کے بعد میں نے اقبال کے کچھ شعر پڑھے او ر ان کے پیچھے شاعر کا ذہن کس طرح کام کر رہا ہوگا، اس کی اپنی دانست کے مطابق وضاحت کی۔حاضرین کی گردنوں کی مسلسل جنبش لطف دے گئی۔
حاضرین کے بارے میں ایک بات طے ہے۔ وہ جیسے ہوں، محفل کا رنگ بھی ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ کوپن ہیگن اس معاملے میں کافی مالدار شہر ہے۔ وہاں اردو زبان کے چار ریڈیو اسٹیشن اور کئی ٹی وی چینل ہیں۔ مشاعرے ہوتے ہیں، ادبی محفلیں ہوتی ہیں، رسالے نکلتے ہیں او رادب لکھا جاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ہمارے احباب ڈنمارک کی زبان میں خوب خوب لکھ رہے ہیں۔ اس روز علاقے کے کئی ادب نواز او ر اقبال فہمی رکھنے والے سرکردہ افراد موجو د تھے۔ان میں نصر ملک کے نام سے پوری ادبی دنیا واقف ہے۔ حاضرین میں باشی قریشی، اے ڈی بٹ، عباس رضوی، سیما شبنم، خالد صابر اور محترمہ روبینہ سے تعارف کی سعادت حاصل ہوئی۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے سفیر منصور جونیجو تھے جنہوں نے بڑی توجہ سے میری تقریر سنی۔ وہ ڈنمارک میں اپنی تین سال کی مدت پوری کرکے اب ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کے جانے کا لوگوں کو دکھ ہے جس کا اس شام خوب اظہار ہوا۔ وہ جانے لگے تو مجمع نے کھڑے ہوکر انہیں الوداع کہا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔دل سے دعا نکلی۔

.
تازہ ترین