• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری نااہلی دو نمبر ہے
سعد رفیق نصیحت آموز لہجے میں کہتے ہیں: ہمیں ٹوئٹ پکڑ کر بیٹھنے کے بجائے آگے بڑھنا چاہئے خدا کا شکر کہ نیوز لیکس کا مخمصہ انجام کو پہنچا اور سول فوج تعلقات پرانے صفحے پر آگئے، لیکن یہ بھی مقام شکر ہے کہ اپوزیشن ابھی مطمئن نہیں، وہ اس آگ میں جل رہی ہے کہ نوازشریف کی قسمت کیوں اتنی اچھی ہے، ان کی ٹیم نے اپنے کیپٹن کو تھکنے نہیں دیا، ایسی فیلڈنگ کی کہ تمام مخالف کمپنیوں کو آف شور کردیا، اور خود ساحلوں پر مزید بیٹھے رہنے کے کام میں جت گئے ہیں، ہونی کا پتہ نہیں ہوتا لیکن سب کچھ ٹھیک ہو جائے ایک ٹھنڈی سی خاموشی چھا جائے تو ماہرین موسمیات کہتے ہیں یہ کسی نئے طوفان کی آمد کی علامت ہوتی ہے، سعد رفیق ازل سے تابہ ابد محنت کرتے رہینگے اور بہت سا میٹھا پھل جمع کرلینگے تاآنکہ ممکن ہے وہ کبھی نہ کبھی وزیراعظم بن جائیں مگر انہیں اس کے باوجود طلب ہوگی کہ نوازشریف ہی وزیراعظم رہیں، کیونکہ وہ گھڑے گھڑائے برانڈڈ وزیراعظم ہیں، ہمارے علاقے میں ایک شخص کپتان نہیں تھے ان کا نام کپتان خان تھا، اگر ٹوئٹ پکڑنے کا کسی کو شوق ہو تو مریم کی طرح پکڑے کیونکہ ان کے ٹوئٹ ان کے والد گرامی کی مسکان کی مانند بے ضرر و بااثر ہوتے ہیں، سعد رفیق نے ’’شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں بہت اچھی اچھی باتیں کیں، اس پروگرام میں خلاف توقع وہ اور شاہ زیب ایک پیج پر تھے، اگر ایساہو چکا ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ شاہ زیب اکثر اتفاق نہیں کرتے اور یہی ان کے پروگرام کو اور اونچا اڑاتی ہے، وہ تیز بلند بولنے میں میڈیا کے سعد رفیق ہیں، ان کی نکتہ سنج ذہانت کو سلام، سعد رفیق تیرے صبر، محنت کو سلام، ہمارے ملک میں اب سب یہ طے کر لیں کہ کچھ بھی کہیں مگر ایک دوسرے کو نااہل نہ کہیں، کیونکہ ہم نے نااہلی کو انکساری کے کھاتے میں ڈال کر عاجزی جیسی دولت پائی ہے یہ بھی کوئی زیادہ سہانا بننے کی کوشش میں نہ کہے کہ یہ عاجزی دو نمبر ہے۔
٭٭٭٭٭
بزرگوں کی سنو وہ تمہاری سنے گا
وفاقی بجٹ میں پنشنوں میں 20فیصد اضافہ کئے جانے کا امکان۔ لو جی مبارک ہو بزرگان وطن کو کہ ان کے آسمان پر بھی ایک کالی بدلی نظر آئی ہے، یہ برستی ہے، یا گرج کر چلی جاتی ہے اس کا اندیشہ پچھلے تجربات کی بنیاد پر رہے گا، ہم حکومتی بزرگوں کو جوان سمجھتے ہیں کیوں کہ انہیں پنشن کی پروا ہی نہیں، دولت، منصب عزت شہرت کسی بھی عمر میں ملے شباب لوٹا لاتی ہے، بزرگ یعنی بوڑھے تو وہ ہیں جو اپنی زیرہ بھر پنشن کے انتظار میں صبر کے ہر ماہ 30روزے رکھتے ہیں، وہ بینکوں میں دھکے کھانے کا گلہ بھی نہیں کرینگے لیکن خدارا اس ملک کے پنشنروں یعنی بزرگوں کو ہر ماہ اتنا ضرور دیں کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی آرام سے گزار سکیں، اللہ کرے، یہ 20فیصد اضافہ پنشنوں میں ہو جائے کہیں 10فیصد پر آکر رک نہ جائے، وزیر خزانہ بھی اگرچہ اب بزرگ ہیں مگر خدا کا دیا اتنا ہے کہ وہ پھر بھی جوان لگتے ہیں، وہ نمازی ہیں ہر نماز کے بعد دعا میں یہ ضرور کہیں یا اللہ مجھے پنشنوں میں 20فیصد اضافے کی حقیقی توفیق عطا فرما۔ پنشنروں کا اجتماعی شعر ہے؎
ایک وہ ہیں کہ پنشن کی نہیں ان کو پروا کوئی
ایک ہم ہیں کہ جنہیں اسحاق ڈار کا انتظار رہتا ہے
ضرورت بھر دولت کا ساتھ رہے تو بڑھاپا جوانی کی طرح کٹ جاتا ہے، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو کلیجہ کٹ کٹ جاتا، وزیراعظم پاکستان ہر آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلتے جاتے ہیں، اس لئے اب وہ پنشنرز کی بھی سنیں یہ 20فیصد اضافے کی جو خبر گردش میں ہے اسے پورا کر دکھائیں،
بزرگوں کی سنو وہ تمہاری سنے گا
تم 20فیصد دو گے وہ سو فیصد دے گا
٭٭٭٭٭
ٹھنڈا کر کے کھانا چاہئے
فوری ردعمل، جلدبازی، ایکدم کسی معاملے میں ٹانگ اڑانا ایسے تمام عمل کام بگاڑ دیتے ہیں، گرم حلوہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا، اسے کچھ وقت دے کر کھایا جائے تو بندہ نہ صرف کھانے میں کامیاب رہتا ہے بلکہ ہضم بھی کرلیتا ہے، ہمارے ہاں تقریباً اکثریت جلد باز ہے، جذباتی ہے، بلاتحقیق بات کا یقین کرلیتی ہے حتیٰ کہ ہمارے رویوں نے گرمیوں کی عمر دراز اور سردیوں کو جواں مرگ بنا دیا ہے، ہم فوراً حرام حلال کے چکر میں پڑ جاتے ہیں، اور جن کملوں کے دانے پورے ہیں ان کو چھیڑتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے سینے پر برف اور جن عقلمندوں کے دانے پورے نہیں انہوں نے سینے پر بھاری بھاری پتھر رکھے ہوئے ہیں؎
جب حرام سکھاتا ہے آداب خورونوش
کھلتے ہیں حرام خوروں پر راز ہائے جعل سازی
حسد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک راہ چلتے کا حسد دوسرا وہ حسد کہ میں نے سب کچھ پا لیا کوئی اور کیوں پا گیا۔ یہ دوسری قسم زیادہ خطرناک ہے، یہاں اشرافیہ پلتا ہے پرولتا ری طبقہ جلتا ہے، کوئی ہمارا سب کچھ چھین کر ایک جپھی ڈال لے ہم اسے بہترین کا تمغہ دیکر اسے اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع دیتے ہیں سوچ سمجھ کر اوپر والے طاقچے میں رکھ کر اپنے ہی بلائے ہوئے مہمانوں کے خلاف کالی تپتی سڑکوں پر نکلے آتے ہیں، اور وہ بھی کوئی ہمیں نکالتا ہے ہم ازخود نہیں نکلتے، ظلم ظلم پکارنا او ر ظلم سہنا محبوب مشغلہ ہے، جس نے 70برس ہوگئےہمیں اپنی حالت نہیں بدلنے دی، پاناما کیس اس قدر گرم تھا کہ ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا تھا مگر ٹھنڈا کر کے کھانے سے آج وہ فریج کے نچلے حصے سے فریزر میں پہنچ گیا ہے، حالانکہ اب بھی یہ توقع ہے کہ وہ شاید ’’اوون‘‘ میں ہے، ڈان لیکس بھی اچھا ہوا فریقین نے ٹھنڈا کرلیا، گرم چمچ سے ٹھنڈا حلوہ کھانے کا ’’سواد‘‘ ہی کچھ اور ہے، حلوہ بنیادی طور پر مذہبی ڈش ہے لیکن ہم نے اقبال کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے مذہب سیاست کو الگ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ اب ٹھنڈا مزیدار حلوہ شاملاٹ ہےچند لوگوں کا۔
٭٭٭٭٭
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے بریکنگ نیوز
٭....بجلی نے نہ آنے کی قسم کھائی ہے، کیا کسی نے بجلی نہ لانے کی قسم کھائی ہے؟
٭.... چینلز پر ہر خبر بریکنگ نیوز،
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے بریکنگ نیوز
دہل جاتا ہے دل، خبروں کا آغاز تو دیکھو
نقار خانے میں ہے طوطی کی آواز مسلسل
لگتا ہے یہ بوڑھے طوطوں کا خان ہے
٭....مریم نواز الزامات سے بری۔
شب برات سے پہلے ہی بری ہوگئیں، اسی لئے تو بڑے لوگوں کے بارے کہتے ہیں ہر روز روز عید ہے ہر شب، شب برات۔
٭....وزیراعظم نوازشریف! عوام نے حکومت کو مینڈیٹ دیا، پاکستان میں وہ ہورہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔
دراصل پہلے عمران خان سیاست میں نہیں تھے، اب وہ ہیں اس لئے یہاں کوہان تو ہوگا۔
٭....زمیندارنی کے ہاتھوں ملازم بچے کا ہاتھ کاٹنے کا واقعہ، چیف جسٹس سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس۔
قرآن حکیم نے قانون قصاص دیا ہے، اگر اس پرعملدرآمد ہو جائے تو کوئی زمیندارنی تو کجا کوئی جاگیردار بھی کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہاتھ سے کبھی محروم نہ کرسکے۔ انصاف کا بول بالا رہے، چیف جسٹس زندہ باد۔

.
تازہ ترین