• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس قائداعظم کی پروردہ نسل میں سے ہوں جنہوں نے کہا تھا کہ جب تک عورت مرد شانہ بشانہ نہیں چلیں گے پاکستانی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ہے وہ بلوچستان گئے، کے پی گئے اور تمام خانوں اور سرداروں کو تلقین کی کہ خواتین کو باہر نکالو اور ان کی ذہانت کو کام میں لائو۔ قائداعظم کے بعد ان کے پیغام کو لے کر محترمہ فاطمہ جناح آگے بڑھیں۔ ایک آمر کے سامنے انتخاب لڑنے کے لئےمشرقی پاکستان کے سب لوگوں یہاں تک جماعت اسلامی نے بھی محترمہ کا ساتھ دیا، سرکاری مشینری نے آمر ایوب خان کا ساتھ دیا۔ ظاہر ہے کہ نتیجہ وہی نکلا جو آمریت کو قائم کرنے کے لئے جنرل ضیاءالحق کے ریفرنڈم کا نکلا تھا کہ اگر مجھے تسلیم کرتے ہو تو اسلام کے نفاذ کو قبول کرتے ہو۔ محترمہ فاطمہ جناح جب تک زندہ رہیں۔ قائداعظم کے یوم وفات یعنی 11ستمبر کو ریڈیو پر تقریر کرتی تھیں۔ وہ بھی بڑا مشکل مرحلہ تھا کہ ریڈیو کی انتظامیہ کو حکم تھا کہ کوئی لفظ موجودہ طرز حکومت کے خلاف ہو تو حذف کردیا جائے۔ محترمہ فاطمہ جناح اس لئے کہتی تھیں کہ میں تقریر سنسر نہیں کرائوں گی اور میں براہ راست قوم سے مخاطب ہوں گی۔ یہ سلسلہ اصرار اور انکار، محترمہ کی زندگی تک چلا۔ جیسے اب تک جتنے لیڈروں کو مارا گیا ہے اور اس کا کوئی حساب نہیں نکلا کہ کس نے اور کس طرح مارا، محترمہ فاطمہ جناح کی وفات بھی اب تک ایک معمہ ہے۔
یہ ساری حکایت میں نے اس لئے سنائی ہے کہ ہماری صوبائی، قومی اسمبلی سے لے کر مقامی حکومتوں میں بھی عورتوں سے متعلق بازاری زبان استعمال ہوتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ عورتیں بول رہی ہیں تو انہیں بولنے دیں، ورنہ ان کے پیٹ میں درد ہوجائے گا۔ ہمارے لیڈروں کو آج کل جلسے کرنے کا شوق بھی زیادہ ہے اور گفتگو میں عورتوں کا نام آئے تو بچپن میں سنے ہوئے فقرے منہ سے نکل ہی جاتے ہیں۔ دیکھا دیکھی، وزیروں نے قومی اور صوبائی اسمبلی میں محتاط زبان بولنے سے نہ صرف گریز کیا ہے بلکہ ایسی بازاری زبان استعمال کی ہے کہ دہرانے میں بھی شرم آتی ہے۔ ہمارے مولانا فضل الرحمٰن نے تو عمران خان کے جلسے کوموجود عورتوں اور موسیقی کے حوالے سے ’’مجرے‘‘ سے شباہت دی تھی۔ سندھ اور کے پی میں ڈپٹی اسپیکر خواتین ہیں جبکہ بلوچستان میں اسپیکر خاتون راحیلہ درانی ہیں۔ سندھ میں شہلا رضا کے ساتھ بھی سوال و جواب کے سیشن میں ہمارے ممبران نے کئی دفعہ مردانگی دکھائی ہے۔ پنجاب میں پارٹی کی سطح پر رقابت دکھانے میں خود عورتوں نے دوپٹے کھینچنے اور بدزبانی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایسے سارے شرمناک جملوں پر حرفِ افسوس ہماری بیٹی آصفہ بھی ہر دفعہ دیتی ہے۔
ایسے فقروں کا نفسیاتی اور واقعاتی سبب کیا ہے۔ وہ خواتین جو ریزرو سیٹ پر اچانک حیرت زدہ رہ کر ممبر پارلیمنٹ بن جاتی ہیں ۔ قانون اور آئین پاکستان کا مطالعہ قطعی نہیں کیا ہوتا۔ ویسے تو مردوں کی علمی سطح کا بھی یہی حال ہوتاہے اس لئے تو جب 23 مارچ کو ٹی وی والوں نے انٹرویو لیتے ہوئے تمام ممبران سے پوچھا تھا کہ قرارداد پاکستان کس نے پیش کی تھی تو تمام ممبران کو نہ پیش کرنے والے کا نام معلوم تھا اور نہ تاریخ ہی معلوم تھی۔ یہ ہے بنیادی تعلیم کا فقدان۔ چلو مان لو کہ کچھ عرصے بعد سیکھ جائیں گے مگر اب تو ان لوگوں کو ممبر بنے چار سال ہوچکے ہیں، اب کون سا وقت سیکھنے کا رہ گیا ہے۔
یہ ساری صورتحال ان ٹریننگ ورکشاپس کے بعد ہے جو کہ باقاعدہ بین الاقوامی فنڈنگ ایجنسیوں نے بارہا منعقد کرائی ہیں، جس میں اسمبلی میں گفتگو کرنے کا سلیقہ، آئین پڑھنے کی ضرورت اور مردوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، شرمانے کی ضرورت نہیں، انسان بن کر کھڑے ہونے اور مکالمہ کرنے کی اہمیت بتائی گئی۔ پھر بھی بے شمار میک اپ، کپڑے ایسے کہ جیسے شادی پر آئی ہیں اس پر زیورات کی جھلملاہٹ۔ جب پاکستان میں ہلیری کلنٹن آئی تھیں اور وزیراعظم بینظیر بھٹو تھیں، بی بی نے اپنے انداز کی وہی سفید شلوار اور سفید دوپٹے کے ساتھ رنگدار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پاکستان کی ذہین خواتین کو بلا کر ان سے تعارف کروایا تھا۔ سب خواتین سادہ لباس میں آئی تھیں، ہلیری کلنٹن نے کھانے کے دوران بہت سی عورتوں سے بات چیت بھی کی اور نوکری میں مردوں کے رویے کے بارے میں پوچھا کہ کسی ایک ملک میں نہیں ساری دنیا کے مردوں کو تہذیب سکھانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات ہمارے ادیبوں پر بھی راسخ آتی ہے، ان کو خواتین اپنی کتاب بھیج دیں اور یہ بھی درخواست کردیں کہ اس پر کچھ لکھ دیں تو کوئی مضمون میں اور کوئی کالم میں حوالہ دیدے گا ورنہ وہ خاتون قلعہ فراموشی میں پڑی رہے گی۔ بعض علما کی جانب توجہ کریں تو وہ دقیانوسی ماحول میں زندہ رہنے کی تاکید کریں گے۔ عورتوں پر جتنے مرضی ظلم ہوجائیں، اگر ٹیلیوژن مائیک سامنے ہوگا تو دو حرف ارزاں ہوں گے ورنہ کہیں گے ’’گھروں سے باہر نکلو گی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ میں اپنے سب دنیا بھر کے مرد دوستوں سے گزارش کرتی ہوں۔ خدا کے لئے ہمارے مردوں کو عقل اور تہذیب سکھائیں۔

.
تازہ ترین