• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے کافی عرصے سے کراچی کے مسائل اور ان کے پس منظر پر کالموں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے‘ اس کا مقصد یہ ہے کہ کراچی کے اصل مسائل کی طرف سب کی توجہ مبذول کرائی جائےاورکراچی کی جو سیاسی پارٹیاں ان ایشوز پر سیاست کررہی ہیں ان کے سامنے یہ سارے مسائل حقائق کے ساتھ پیش کیے جائیں اور ان سے توقع کی جائے کہ وہ کراچی کے مسائل پر محض سیاست کرنے کو اپنا مطمع نظر نہ بنائیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں‘ ان مسائل کی اصل وجوہات کی نشاندہی کرکے ان کا ازالہ کیا جائے۔ میں اس سلسلے میں کالم لکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو اخبارات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کراچی کی کچھ مخصوص سیاسی پارٹیوں کے اندر سیاست مختلف رنگ ڈھنگ اختیار کررہی ہے مگر اسی دوران کچھ عجیب و غریب ڈویلپمنٹ ہوئی ہیں جن کا جائزہ لینے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت‘ حکومت کرنے کی اہل بھی ہے؟ یا یہ کہ کیا ملک ایسے چلائے جاتے ہیں‘ اگر ملک ایسے چلائے گئے تو ایسے ملک کا خدا حافظ ہے‘ یہ جن نئی ڈویلپمنٹ کا میں نے ذکر کیا ہے اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر میں سب سے پہلے Sea Intrusion کے بارے میں حال ہی میں سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کی جانے والی پریس ریلیز پیش کررہا ہوں۔ کراچی کی خوش قسمتی یہ ہے کہ کمیٹی کے اس اہم اجلاس کی صدارت ایم کیو ایم کے سینیٹر سید طاہر حسین مشہدی نے کی۔ پریس ریلیز کے مطابق سینیٹ کی یہ اسٹینڈنگ کمیٹی جو منصوبہ بندی‘ ترقیات اور اصلاحات کے بارے میں بنائی گئی ہے‘ نے اپنے اجلاس میں سمندری ساحل والے شہر کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں کے گرد Sea Intrusion کے بڑھ جانے پر تشویش ظاہر کی ہے اور اس بات کی سفارش کی ہے کہ حکومتی ادارے‘ بشمول سپارکو فوری طور پر اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر کریم خواجہ نے خاص طور پر Sea Intrusion کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ اس ایشو کو سینیٹ کمیٹی کی طرف سے ایک سال پہلے سے اٹھانے کے باوجود وفاقی حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ سپارکو اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں تاخیر کررہی ہے۔ سینیٹر کریم خواجہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی اسٹڈی کے مطابق دنیا کے 20 بڑے ساحلی شہر جن میں کراچی بھی شامل ہے ، کو Sea Intrusion کا شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر کی سطح میں بتدریج اضافہ سندھ کے ساحل کے لئے شدید خطرہ ہے کیونکہ انڈس ڈیلٹا کا علاقہ نشیبی ہے جبکہ انڈس ڈیلٹا کا کچھ حصہ تو پہلے ہی سمندر کی سطح سے نیچے ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق ایسا ہی خطرہ مکران کے ساحل کو بھی درپیش ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کی ہدایات کے تحت این آئی او (NIO) ‘ سپارکواور محکمہ ہائیڈرو گرافی پر مشتمل سیل قائم کیا تھا تاکہ سی انٹروزن کے بڑھنے اور زمین سمندر کی سطح سے نیچے جانے کے مسئلے کے بارے میں اسٹیڈیز کرے۔ سینیٹر کریم خواجہ نے خبردار کیا کہ اگر سپارکو پی سی ون تیار کرنے میں مزید تاخیر کرتا ہے تو اس ایشو کو حل کرنے کے سلسلے میں آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ مخصوص نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس میں شریک منصوبہ بندی کمیشن کے ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ اگر متعلقہ محکمہ Sea Intrusion کے خاتمے کے لئے پروجیکٹ کی پی سی ون تیار کرلیتا ہے تو کمیشن اس کی منظوری دیدے گا اور اس مقصد کے لئے مطلوبہ رقم بھی جاری کردی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ریٹائرڈ کرنل سید طاہر حسین مشہدی نے کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ انتہائی حساس اور اہم ہے کیونکہ سمندر کی سطح میں بتدریج اضافہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔جبکہ سینیٹر محسن لغاری نے ان معاملات میں حکومت کی کارکردگی پر انتہائی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ یہاں میں قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ تقریباً سات آٹھ ماہ پہلے میں نے Sea Intrusion پر کئی کالم لکھے تھے‘ اس کے بعد وفاقی حکومت‘ سندھ حکومت‘ ان کے متعلقہ اداروں‘ سپارکو اور بحریہ کی طرف سے کراچی میں اس ایشو پر ایک تفصیلی بریفنگ کا اہتمام کیا گیا‘ اس میں ان اداروں کے نمائندوں کے علاوہ کراچی سے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار‘ پی پی کے سینیٹر تاج حیدر‘ سینیٹر کریم خواجہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ امید تھی کہ اس بریفنگ میں ڈاکٹر فاروق ستار ضرور بولیں گے اور زور دار انداز میں بولیں گے مگر جب تک میں اس بریفنگ میں موجود تھا میں نے ڈاکٹر فاروق ستار کو خاموش بیٹھے دیکھا‘ میں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ سرگرم بلوچستان کے سینیٹر‘ سینیٹر کریم خواجہ اور سینیٹر سسی پلیجو تھیں جن کا تعلق ٹھٹھہ ضلع سے ہے جو Sea Intrusion کے نشانے پربھی ہے‘ مگر اسی دوران مجھے ایک ایسی رپورٹ ملی جس نے مجھے ہکا بکا کردیا۔ یہ رپورٹ مجھے وفاقی حکومت کے ایک سینئر آفیسر نے دی۔ اس رپورٹ کے مطابق پانی اور بجلی کی وفاقی وزارت کے اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایک پی سی ون پیش کی گئی جس کے مطابق اس پروجیکٹ پر 650 ملین روپے کا خرچ آنا تھا‘ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ اس پروجیکٹ کا مقصد یہ ہے کہ Sea Intrusion مسئلہ ہے بھی یا نہیں؟ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب تک نیوی کے افسران اس ایشو پر کہتے رہے ہیں‘ یا سپارکو اور دیگر قومی و بین الاقوامی ادارے کہتے رہے ہیں یا مرکز‘ سندھ اور بلوچستان کے سینیٹرز جو کہتے رہے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ مزید دلچسپ انکشاف یہ ہوا ہے کہ پی سی ون کے مطابق اس پروجیکٹ پر جو 650 ملین روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی وہ Sea Intrusion کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے لگائے جانے والے اسٹاف اور افسران کی تنخواہ‘ گاڑیوں‘ رہائش‘ لیپ ٹاپ وغیرہ اور دیگر لوازمات پر خرچ کی جائے گی۔ یہ سب کچھ سننے کے بعد اگر یہ معلومات درست ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسی حکومت کو حکومت کہا جاسکتا ہے اور کیا ملک ایسے چلا کرتے ہیں؟

.
تازہ ترین