• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈان لیکس جیسا نان ایشو حل کیا ہوا کہ جمہوریت دشمن عناصر اور نا عاقبت اندیش سیاستدانوں میں صف ماتم بچھ گئی اور ان کی چیخوں کی آوازیں ٹی وی چینلوں پر لگا تارگونج رہی ہیں۔ یہ ایک بار پھر ’’یتیم‘‘ ہوگئے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جاگتے ہوئے خواب دیکھنے والوں کی نیندیں اڑ گئیں اور یہ ہاتھ ملتے رہ گئے کہ ان کی دلی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ ایک احمق نے تو یہاں تک ہرزہ سرائی کی کہ ’’ریجکٹیڈ‘‘ والا ٹویٹ واپس لینا 1971والا بھارت سے سرنڈر جیسا ہے۔ یعنی ان صاحب نے تو وزیراعظم نوازشریف کی آئینی حکومت جو کہ عوام کے ووٹوں سے آئی ہے کو بھارت سے تشبیہ دے دی۔ اس سے بڑا ظلم اور زیادتی کیا ہوگی۔ بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش بھارت نے تیار کی تھی اور اس مقصد کیلئے اپنی فوجیں استعمال کی تھیں۔ پاکستان بطور ملک نہ کہ صرف پاک آرمی یہ جنگ ہاری تھی اور سرنڈر بھی پاکستان نے کیا تھا۔ اس سانحے پر تمام پاکستانی چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت ، عقیدے یا مذہب سے ہو برابر کے دکھی ہوئے اور یہ دکھ آج تک ان کے دلوں میں موجود ہے۔ ملک کا دو لخت ہونا اور ٹویٹ کا واپس لینا کیا ’’دانشورانہ‘‘ موازنہ ہے۔کچھ ریٹائرڈ جنرلز جو کہ ٹی وی چینلوں پر اپنے آپ کو فوج کے ترجمان کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں جو کہ وہ دراصل نہیں ہیں، کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ ڈان لیکس کا مسئلہ حل ہونے پر کیا کہیں۔ وہ کئی مہینوں سے اس پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ کسی بھی ماحول میں ان کی باتیں سنیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ سویلین حکومت اور فوج ہر وقت ایک دوسرے کے گلے پڑے ہوئے ہیں جو یقیناً حقیقت نہیں ہے۔ کبھی کبھار چھوٹے موٹے ’’اریٹنٹس‘‘ ہوتے رہتے ہیں مگر اس سے یہ نہیں ہوتا کہ حالات بریکنگ پوائنٹ تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ عناصر ہمیشہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور فوج کو اکسانے پر لگے رہتے ہیں کہ وہ غیر آئینی اقدام کرنے کا سوچے۔ تاہم یہ فوجی قیادت کی دانشمندی ہے کہ وہ ان کے دھوکے میں نہیں آتی اور آئینی اور قانونی دائرے میں رہ کر کام کرتی رہتی ہے۔ اگر آرمی کو کچھ مسئلوں پر تحفظات بھی ہوں تو وہ ان کا اظہار کھل کر سیاسی قیادت سے کر دیتی ہے اور مسئلے کا حل نکل آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں خصوصاً پی ٹی آئی سب سے زیادہ پریشان ہے کہ ڈان لیکس کا مسئلہ حل کیوں ہوگیا ہے کیونکہ وہ تو چاہتی تھی کہ یہ حکومت اور فوج کے درمیان وجہ تنازع بنی رہے یہاں تک کہ 2018ء کے انتخابات آ جائیں۔ انکوائری کمیٹی کی تمام سفارشات پر عمل ہو چکا معلوم نہیں پی ٹی آئی اس کی پوری رپورٹ کو پبلک کرا کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے سوائے اس کے کہ اس مسئلے کو اور کھینچا جائے۔
ایک طرف تو یہ رونا دھوناہے دوسری طرف پورے پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ کئی ماہ سے جاری ڈان لیکس کے مسئلے پر لاحاصل کھچائو انتہائی خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوا۔ وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا کہ خواہ مخواہ ایک نان ایشو کو لمبا کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے اندر ایک عجیب ہیجانی ماحول جنم لے رہا ہے بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ملک کا نام بدنام ہورہا ہے۔ ایسے وقت میں اس نان ایشو کو مزید کھینچنا انتہائی نامناسب ہوتا جبکہ ایران نے بھی پاکستان کو دھمکی دیدی ہے اور بھارت پہلے ہی ہمارے خلاف سازشوں میں لگا ہوا ہے اور افغانستان کے ذریعے ہم پر حملے کر رہا ہے۔ ساری توجہ اندرونی اتحاد اور یگانگت پر ہونا ضروری ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی ایک فریق ہار گیا ہے اور دوسرا جیت گیا ہے انتہائی نامناسب ہے۔ اگر کوئی جیتا ہے تو وہ جمہوریت ہے، آئین ہے، پاکستان ہے اور اداروں کی میچورٹی ہے جس پر سب کو خوش ہونا چاہئے۔ ہر وقت اسی رٹ میں لگے رہنا کہ حکومت اور فوج میں مختلف ایشوز پر اختلافات ہیں پاکستان کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ ہمیں یہ کہتے اور لکھتے کیوں شرم محسوس ہوتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ ’’ریجکٹڈ‘‘ ٹویٹ نا مناسب تھا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ بعد میں احساس ہوگیا کہ یہ غلط تھا اور پوسٹ نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔بالآخر وزیراعظم کے 29اپریل کو جاری ہونے والے ڈائریکٹو کو ہی صحیح مانا گیا اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی سوائے اس کے کہ وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں اس پوائنٹ کا بھی اضافہ کر دیا گیا کہ انکوائری کمیٹی میںسینیٹر پرویز رشید کے خلاف وزیراعظم کے لئے گئے ایکشن (کابینہ سے سبکدوشی) کو انڈورس کیا گیا ہے۔ 29اپریل والے ڈائریکٹو میں اس کا ذکر نہیں تھا کیونکہ یہ ایکشن تو پہلے ہی لیا جاچکا تھا اور اس کا اس میں ذکر کرنا بے معنی تھا۔وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی بنیاد وزیراعظم کا 29 اپریل والا حکم نامہ ہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل وجہ تنازع کچھ بھی نہیں تھی اور خواہ مخواہ ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر پیش کیا گیا۔ میجر جنرل آصف غفور نے بجا طور پر کہا کہ ٹویٹ کی وجہ سے فوج اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے۔ یہ کس نے کیا انہی عناصر نے جو کہ اپنے آپ کو فوج کے نام نہاد ترجمان کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ سید طارق فاطمی کو 29اپریل کے ڈائریکٹو کے فوراً بعد بطور اسپیشل اسسٹنٹ سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کی سختی سے تردید کر دی ۔ پرویز رشید پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کا کام بطور وزیر اطلاعات خبروں کو رکوانا نہیں ہے انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ پی آئی او رائو تحسین علی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے خلاف لئے گئے ایکشن کوعدالت میں چیلنج کریں گے ۔ اے پی این ایس جس کو کہا گیا ہے کہ وہ ڈان اخبار، اس کے ایڈیٹر اور اس کے رپورٹر کے خلاف ایکشن لے کا رد عمل ابھی آنا باقی ہے۔ پی پی پی رہنما اعتزاز احسن کا مطالبہ کہ میجر جنرل آصف غفور کو اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہئے بالکل بیکار اور غلط ہے کیونکہ انہوں نے بطور پاک فوج کے ترجمان کے نہ کہ اپنی ذاتی حیثیت میں ٹویٹ جاری کیا تھا۔ اگر انہوں نے یہ ٹویٹ جاری کیا تھا تو انہوں نے ہی اس کو واپس لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

.
تازہ ترین