• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز چیچہ وطنی میں مویشی منڈی کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ پانچ سال بعد لوگ پوچھیں گے کہ پانچ سال میں تم نے عوام کیلئے کیا کیا۔ تحریک انصاف کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس صوبہ ہے اور یہ سوال تم سے بھی پوچھا جائے گا۔ وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ملک ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔دہشت گردی، انتہاپسندی اور لوڈ شیڈنگ سمیت ملک کو درپیش چیلنجوں پر مؤثر انداز میں قابو پانے کے اقدامات جاری ہیں ۔ شاہراہوں کی تعمیر سے تجارت کی مثالی سہولتوں کی راہیں کشادہ ہورہی ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل پورے ملک اور خطے کی خوشحالی کے روشن امکانات کے دروازے کھول رہی ہے۔وزیر اعظم کی یہ بات حقیقت کی بالکل درست نشان دہی ہے کہ حکمراں سیاسی جماعتوں کو اپنے اقتدار کی میعاد کی تکمیل کے بعد عوام کے سامنے جوابدہی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ وفاق اور صوبوں میں حکمراں سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کی آئینی مدت کے چار سال مکمل کرچکی ہیں اور صرف ایک سال بعد آئندہ عام انتخابات کے موقع پر انہیں دوبارہ عوام کی عدالت میں جانا ہے۔ پچھلے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو وفاق یا صوبوں میں بلاشرکت غیرے یا دوسری جماعتوں کے اشتراک سے حکومت سازی کا موقع ملا ۔ وفاق ، پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی، سندھ پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا اور خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف نے حکومت بنائی۔ بظاہر یہ ایک بڑی مثالی صورت حال تھی جس کی بناء پر توقع تھی کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں صحت مندانہ مقابلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے منشور کے مطابق عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے مسلسل اور انتھک کام کریں گی اور یوں ملک کی ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ لیکن عملی صورت حال اس کے برعکس رہی اور چار سال کی مدت، انتخابات میں دھاندلی کے نام پر مرکزی حکومت کے خاتمے کیلئے احتجاج اور دھرنے اور پھر پاناما لیکس اور نیوز لیکس کے ہنگاموں میں گزرگئی۔ تاہم انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سپریم کورٹ میں ثابت نہ ہوسکے، نیوز لیکس کا معاملہ بھی سیاسی اور عسکری قیادت نے دانشمندی سے حل کرلیا جبکہ پاناما لیکس کی تحقیقات کا عمل جاری ہے اور اس کا بھی کوئی نہ کوئی فیصلہ آئندہ دس بارہ ہفتوں میں متوقع ہے ۔ لیکن ان مہم جوئیوں کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بہرحال بری طرح متاثر ہوئی، وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کے دوسرے ذمہ داروں کے وقت کا بڑا حصہ اپنے دفاع اور صفائی میں صرف ہوا جبکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں عوام کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل پر اپنی توجہ اور صلاحیتیں مرتکز کرنے کے بجائے ان کا بڑا حصہ مرکزی حکومت کو گرانے کی کوششوں میں صرف کرتی رہیں۔خصوصاً تحریک انصاف اور اس کے قائد کا تو بیشتروقت اور توانائیاں وفاقی حکومت کو گرانے اور مرکز میں اپنی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی خواہش کی تکمیل کی کوششوں ہی میں خرچ ہوئیں اور اس میں اتنا وقت گزرگیا کہ اب نئے انتخابات سر پر آگئے ہیں۔ جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بظاہر کسی بڑی رکاوٹ اور دشواری کے موجود نہ ہونے کے باوجود کسی قابل فخر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔اس صورت حال میں تینوں حکمراں سیاسی جماعتوں کیلئے دانشمندی کا راستہ یہی ہے کہ اب ان کے پاس جو مہلت باقی ہے اسے پوری سنجیدگی اور تندہی سے عوام کے مسائل حل کرنے میں صرف کریں، احتساب کا کام عدالتوں پر چھوڑدیں اور کارکردگی کو مقابلے کا اصل میدان بنائیں کیونکہ آئندہ انتخابات میں عوام کا فیصلہ کارکردگی ہی کی بنیاد پر ہوگا۔

.
تازہ ترین