• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، کبھی اسلام آباد میں کمسن طیبہ اور کبھی ملتان میں گیارہ سالہ گھریلو ملازمہ شبانہ پر کئے جانے والے طرح طرح کے مظالم سامنے آرہے ہیں۔ غربت کے مارے بچے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں چائلڈ لیبر کی صورت میں پیسے کمانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پنجاب کی تحصیل شاہ کوٹ کے گائوں مچھر والی میں13سالہ گھریلو ملازم عرفان نے روٹی مانگی اس کے بدلے مالکن نے چارہ کاٹنے کی مشین میں اس کا ہاتھ دے دیا جس سے بچے کا ہاتھ کٹ گیا۔ واقعہ کا سن کر وزیراعلیٰ شہباز شریف متاثرہ خاندان کے پاس گئے۔ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا ۔واقعہ کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ غریبوں سے زیادتی کرنے والے کسی بھی ظالم کو قانون کے شکنجے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پولیس کے مطابق ملزمہ شفقت بی بی نے عبوری ضمانت کروا رکھی ہے۔ سابقہ کیسز کی طرح اس واقعہ کی کارروائی کہاں تک موثر ہو سکے گی اس بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں۔ آئے دن رونما ہونے والے بیشتر واقعات ایسے ہیں جن میں متاثرہ افراد کو لالچ دے کر یا دبائو ڈال کر بیان بدلنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے بہت سے واقعات گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دیئے جاتے یا پھر ظالموں کے ہاتھ قانون سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی نتیجہ خیز کیس سامنے نہیں آیا۔ شاید ہی کسی کو اپنے جرم کی سزا ملی ہو۔ اس بات کو دہرانا پڑتا ہے کہ اس غیرانسانی رویے کا تدارک اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے رو سے حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے تحت سوشل سیکورٹی کفالت کا نظام موثر بنا کر یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ گھر والے بچے کو مزدوری کرانے پر مجبور نہ ہوں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے متاثرہ خاندانوں کی قانونی و مالی معاونت فراہم کرنے کا بندوبست ہونا چاہئے جبکہ مجرموں پر قانون کی گرفت ہرگز ڈھیلی نہیں پڑنی چاہئے۔

.
تازہ ترین