• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ملک کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج نہیں بلکہ اس وقت شاید سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ سول ملٹری تعلقات خراب ہوں تو باقی تما م چیلنجز سے نمنٹے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے اور اگر درست سمت پر گامزن ہوجائیں تو ہر چیلنج سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے ۔ تاہم پاناما کیس یا ڈان لیکس وغیرہ سول ملٹری تعلقات کی خرابی کی جڑ نہیں بلکہ شاخیں ہیں جن کی شکل میں پہلے سے موجود خرابی کا اظہار ہوتاہے۔ سول ملٹری تنائو کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان روز اول سے نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کا چیلنج کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا جس کی وجہ سے قومی سلامتی کے اداروں کا کردار بھی بڑھتا گیا۔ آج فوج پاکستان میں واحد مضبوط اور طاقت ور ترین ادارہ ہے جبکہ دوسری طرف پارلیمنٹ، عدلیہ اورمیڈیا جیسے ادارے حد سے زیادہ کمزور یا پھر بگاڑ کے شکار ہیں ۔ یوں سول اداروں اور ملٹری کے مابین کردار اور اختیار کی ایک کشمکش جاری رہتی ہے ۔ یہ کشمکش بھٹو کے دور میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ، جونیجو کے دور میں بھی ، زرداری کے دور میں بھی اور میاں نوازشریف کے دور میں بھی ۔ اپنی ادارہ جاتی برتری کی وجہ سے دوسرے اداروں سے متعلق مقتدر ادارے کے رویے میں عمومی طور پر ایک حاکمیت کا عنصر بھی نظر آتا ہے ۔ دوسری طرف اپنی کمزوریوں کو دور کرنے ، اپنے آپ کو بلند اخلاقی پوزیشن پر فائز کرنے اور بہتر کارکردگی کی بنیاد پر عسکری اداروں کو ان کے آئینی رول تک محدود کرنے کی بجائے سیاستدانوں کے درمیان اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کشمکش جاری رہتی ہے ۔ پیپلز پارٹی حکمران ہو تو مسلم لیگ(ن) کی یہ کوشش رہتی ہے کہ اسے فوج سے لڑاکر اپنے آپ کو فوج کی گڈ بکس میں شامل کردے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے تو پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی یہ خواہش ہے کہ فوج کو حکومت سے لڑوا کر خود اپنا نام وفاداروں کی صف میں شامل کردے ۔ یہی مسابقت میڈیا کے اداروں اور افراد کے درمیان بھی جاری ہے ۔ دوسری طرف عسکری ادارے بھی اخلاقی برتری کے سہارے سویلین سے اپنی بات منوانے کی بجائے ادارہ جاتی طاقت کے زور پر یا پھر ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر منوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی سیاستدانوں کی کرپشن پرپریشانی بجا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر کبھی نوازشریف کو لیڈر بناتے ہیں ، کبھی بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کرتے ہیں اور کبھی عمران خان کو بالجبر قوم کے سروں پر مسلط کرتے ہیں ۔ وہ پاناما اور ڈان لیکس جیسے معاملات پر اگر رعایت نہیں دیتے تو شاید ٹھیک کرتے ہیں لیکن دوسری طرف حمودالرحمان کمیشن رپورٹ، اوجڑی کیمپ سانحہ رپورٹ ، سانحہ بہاولپور اور2مئی رپورٹ کی فائلوں پر سے گرد ہٹانے کے لئے بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں ۔ ملک سے ان کی وفاداری اور کمٹمنٹ شک وشبہ سے بالاتر ہے لیکن جب تک کوئی حکمران ان کے اداروں یا شخصیات سے چھیڑخانی نہ کرے تب تک ان کی کرپشن اور دیگر غلطیوں کو برداشت کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نوازشریف نے ابتدامیں جس طرح اپنی حکومت کو ایک مخصوص علاقے کی حکومت بنا کر چھوٹے صوبوں کےاحساس محرومی کو بڑھا دیا تو اس روش پر ان کی پکڑ کی جاتی ۔ جس طرح انہوںنے سی پیک جیسے منصوبے کو اپنی سیاست اور ایک علاقے کا منصوبہ بنا کر متنازع بنایا اور جس طرح گلگت، بلوچستان اور پختونخوا کی محرومیوں کے لئے تریاق کی حیثیت رکھنے والے اس منصوبے کو ان کی محرومیوں میں مزید اضافے کا ذریعہ بنا دیا گیا تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس حوالے سے عسکری اداروں کی طرف سے دبائو ڈال کر میاں صاحب کو روک دیا جاتا لیکن ان کی ملکی سلامتی کے منافی یہ سب حرکتیں اس وقت تک برداشت کی جاتی رہیں جب تک انہو ں نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش نہیں کی۔جب پرویز مشرف کاتنازع سامنے آیا تو میاں صاحب کے خلاف دھرنے کروائے گئے ۔ پھر جب جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا معاملہ آیا تو لاک ڈائون ہوگیا۔ بار بار کے مارشل لائوں اور مذکورہ دیگر عوامل کی وجہ سے عسکری اداروں کا خوف اور کنٹرول تو بڑھ گیا ہے لیکن دوسری طرف قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے تصورات کے حوالے سے سول ملٹری خلیج کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے ۔
یہ تو وہ دائمی اور مستقل مسائل ہیں کہ جو ہر دور میں سول ملٹری تنائو کا باعث بنتے ہیں اور انہی کے حل کے لئے میں تجویز کرتا رہتا ہوں کہ قومی سطح کے ہمہ گیر مکالمے کے ذریعے نئے رولز آف گیم بنا کر ہی ان کا مستقل حل تلاش کرنا ضروری ہے لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں کہ جو میاں نوازشریف کی ذات تک خاص ہوگئے ہیں ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ خراب رہتے ہیں حالانکہ وہ خود فوج کے پیداوار سیاستدانوں کی صف میں شامل ہیں اور ان کی جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) ، اپنے ماضی اور ساخت کے لحاظ سے آج بھی فوج کے لئے سب سے زیادہ قابل قبول جماعت ہونی چاہئے ۔ میرے نزدیک میاں نوازشریف کے دور حکومت میں سول ملٹری تعلقات کی خصوصی خرابی کی وجہ میاں صاحب کی ذات سے نتھی کچھ چیزیں ہیں ۔ دیکھنے میںآیا ہے کہ اجنبی لوگوں کی بہ نسبت ان لوگوں کی بے وفائی یا آنکھیں دکھانے کا زیادہ دکھ محسوس ہوتا ہے کہ جو ماضی میں دوست یا پھر زیراحسان رہے ہوں ۔ اب میاں صاحب جب فوج یا اس کی سوچ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تودوسری طرف کو زیادہ غصہ اس لئے آتا ہے کہ وہاں دلوں سے صدا نکلتی ہے کہ میری بلی اور مجھے میائوں۔ میاں صاحب کے رویے کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ فوج کے ساتھ بطور ادارہ تعلق نہیں رکھتے ۔ وہ ہمیشہ سے ان میں بعض افراد کو اپنانے اور ان کے ذریعے اپنا کنٹرول مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب وہ یہ کام کرتے ہیں تو اس شخص یا اشخاص پر اپنے اداروں کی طرف سے دبائو بڑھ جاتا ہے اور پھر اداروں کے اندر اپنی کریڈیبلٹی بحال رکھنے کی خاطر ان کو الٹا نوازشریف کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ جنرل راحیل شریف اس معاملے کی ایک کلاسک مثال ہیں۔ مثلاً میاںصاحب نے اپنے دور حکومت میں کبھی یہ کوشش نہیں کی
کہ کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی یا پھر کسی اور باضابطہ فورم پر وہ عسکری اداروں کے ساتھ بطور ادارہ اپنے تعلقات بہتر بنائیں یا پھر جو متنازع معاملات ہیں ان کے حل کا راستہ نکالیں ۔ اس کے برعکس وہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں پر تکیہ کرتے رہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے اس قدر خلاف ہوگئے کہ مجبوراً جنرل راحیل شریف کو بھی ان کی ترجمانی کرنی پڑی ۔ تیسری بڑی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ میاں صاحب عسکری اداروں کے ساتھ بھی روایتی سیاست سے کام لیتے ہیں ۔ ایک وزیر کو ان کے ساتھ رابطے اور خوشامد کی ڈیوٹی دے دیتے ہیں اور دوسرے کو ان کے خلاف بولنے کی
دوسری طرف دیکھنے میں آیا ہے کہ عسکری ذہن اپنے ساتھ ڈبل گیم کا بہت برا مناتا ہے ۔ اب ایک طرف عسکری ذہن عموماً سویلین پر زیادہ اعتماد نہیں کرتا لیکن اس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ اس پر اندھا اعتماد کیا جائے لیکن دوسری طرف میاں نوازشریف واحد ایسے سویلین بن گئے ہیں کہ جو اپنے اور خاندان کے افراد کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتے لیکن وہ تقاضا کررہے ہوتے ہیں کہ ان پر اندھا اعتماد کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بنسبت میاں نوازشریف کے فوج کے ساتھ تعلقات جلدی اور زیادہ خراب ہوجاتے ہیں ۔ میرے نزدیک آج بھی اگر میاں نوازشریف یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ افراد کی بجائے عسکری اداروں سے ڈیل کریں گے تو بہتری آسکتی ہے۔
خفیہ ملاقاتوں کی بجائے وہ اگر مشاورت کا عمل باقاعدہ آئینی اور باضابطہ فورمز پر کرنا شروع کردیں تو کافی بہتری آسکتی ہے اور اگر یہ فیصلہ کرلیں کہ کم از کم عسکری اداروں کے ساتھ وہ سیاست سے کام لینے کی بجائے شفافیت کا راستہ اپنائیں گے تو مزید بہتری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ تاہم سول ملٹری تنائو کے مکمل خاتمے کے لئے قومی سطح کی مشاورت اور نئے رولز آف گیم کی ضرورت ہے نہیں تو ایک حکومت میں میمو گیٹ کا رولا ہوگا تو دوسری میں ڈان گیٹ کا۔ نقصان ہوگا تو ملک کا ہوگا۔

.
تازہ ترین