• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری تاریخ میں ایسے خوبصورت دن کم کم ہی آئے ہیں، جن سے اداروں کی باہمی ہم آہنگی ، خاص طور پرسول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ایسا مثبت پیغام ملے ، جس سے پوری قوم میں اطمینان و مسرت کی لہر دوڑ جائے، ماسوائے ان عناصر کے جنکی ساری امیدیں فتنہ و فساد ، اداروں کے ٹکرائو اور افراتفری سے وابستہ ہیں۔ بدھ 10 مئی کا دن اس حوالے سے بہت عرصے تک یاد رکھا جائے گاکہ سول اور عسکری قیادت نے بردباری ، تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، ایک ایسے معاملے کو خوش اسلوبی سے سلجھایا جسے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا تھا۔ اور جسکی آڑ میں کچھ لوگ اپنی سیاست کی دکان چمکانے بیٹھ گئے تھے۔
ڈان لیکس کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب جنرل (ر)راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کو تھی۔سو یہ معاملہ نئی عسکری قیادت کو ورثے میں ملا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل کی رخصتی کے بعد بھی فوج میں ڈان لیکس کے معاملے میں بڑی حساسیت پائی جاتی تھی۔ اور اسکے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کا تقاضا موجودتھا۔ بالآ خر یہ رپورٹ مرتب ہو گئی ، جس پر تحقیقاتی کمیٹی کے د و فوجی اراکین سمیت تمام ممبران نے اتفاق کیا۔ اس متفقہ رپورٹ کےمطابق کچھ اقدامات تجویز کیے گئے تھے ، جو رپورٹ کے پیرا 18 میں سفارشات کی شکل میں درج تھے۔ 29 اپریل کو وزیر اعظم نے پیرا 18 کی تمام سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے ایک آرڈر جاری کیا ، جس میں تمام متعلقہ اداروں اور وزارتوں کو وہ اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا جنکی سفارش کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کا یہ آرڈر ، وزارت داخلہ کو جانا چاہیے تھا جو باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کرتی۔ جس میں پیرا 18 کی سفارشات کا اعادہ کیا جاتا اور پھر متعلقہ ادارے اسکے مطابق عمل کرتے۔ غالبا فوج نے اسے کسی طے شدہ پروگرام کے منافی خیال کیا اور ایک ایسا ٹویٹ جاری کیا گیاجو اپنی شدت کے لحاظ سے ہماری تاریخ کا پہلا نمونہ تھا۔ اس ٹویٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ وزیر اعظم کے نو ٹیفیکیشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ سوال اٹھایا گیا کہ حکومت کا ایک ماتحت ادارہ کس طرح چیف ایگزیکٹو(وزیر اعظم) کے احکامات کو مسترد کر سکتا ہے۔ اگرچہ اس ٹویٹ کی آڑ میں حکومت مخالف سیاسی حلقوں نے اپنی خواہشوں کی تکمیل کیلئے نئے سرے سے صف بندیاں شروع کر دیں۔ تاہم قوم اور میڈیا کے سنجیدہ حلقوں بلکہ اپوزیشن کی بعض آئین پسند شخصیات نے بھی اسے آئین اور مسلمہ روایات کے خلاف قرار دیا۔
حکومت کا موقف یہ تھا کہ کمیٹی کی تمام متفقہ سفارشات پرکلی طور پر عمل کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب پیرا 18 کی تشہیر کی ضرورت نہیں رہی۔ جبکہ فوج اس موقف پر قائم تھی کہ یہ تفصیلات ضرور سامنے آنی چاہئیں۔ 9مئی کو وزیر اعظم نے اپنے قریبی سیاسی رفقاسے مشاورت کی۔ اگرچہ اس طویل مشاورتی اجلاس کے بعد کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ لیکن میڈیا میں یہ تاثر نمایاں طور پر ابھرا کہ حکومت ٹویٹ کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اسکا خیال ہے کہ اس ٹویٹ سے وزیر اعظم کے منصب اور آئین و جمہوریت کی توہین ہوئی ہے۔ تاہم عمومی خدشات کے بر عکس 10 مئی کی سہ پہر کو یہ خبر آئی کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم ہائوس میں ڈیرھ گھنٹہ تک وزیر اعظم سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جنرل صاحب نے خود اپنے وفد کے ہمراہ وزراء کی ایک ٹیم سے معاملات طے کیے۔ شام تک مطلع صاف ہو گیا۔ آئی ایس پی آر نے متنازع ٹویٹ واپس لے لیا۔ حکومت نے پیرا 18 کی تفصیلات جاری کر دیں۔اور بعد ازاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں بڑے عمدہ طریقے سے صورتحال کی وضاحت کر دی اور کہہ دیا کہ وزیر اعظم ہی فائنل اتھارٹی ہیں اور انکے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ انہوں نے جمہوریت کیساتھ فوج کی وابستگی کا بھی اعلان کیا۔ اس پیش رفت پر محسوس ہوا کہ واقعتاََ وطن عزیز کے حالات میں مثبت بہتری آرہی ہے اور ماضی میں ذرا ذرا سی بات پر معاملات کو بگاڑنے والے عناصر شاید اب موثر نہیں رہے۔ اس معاملے پر تجزیے ہوتے رہیں گے۔ ایک حلقہ ایسا موجود ہے اور رہے گا جو اپنی خواہشوں کی ناکامی کا ماتم کرتے ہوئے ، فوج کو کمزوری کا طعنہ دے گا اور جنرل قمر جاوید باجوہ پر تیر برسائے گا۔ یہ سلسلہ شروع بھی ہو گیا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں جنرل باجوہ ایک ہیرو کے طور پر ابھرے ہیں۔ انکا قد کاٹھ مزید بلند ہوا ہے۔ انکے تدبر ، معاملہ فہمی، اور جمہوریت سے وابستگی کا نہایت ہی خوبصورت عملی نمونہ سامنے آیا ہے ۔ انہوں نے قائد اعظم کی فکر کے عین مطابق ، جمہوری طور پر منتخب حکومت کو رسوا کرنےاور اپنی طاقت کا دبدبہ بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ ہماری تاریخ میں چار جرنیل ایسے گزرے ہیں، جنہوں نے حکومتوں کے تختے الٹے، سیاسی رہنمائوں کو پھانسیاں دیں، انہیں جیلوں میں ڈالا، انہیں ملک بدر کیا ، اور بڑے کروفر کیساتھ کئی کئی سال حکمرانی کی۔ ہماری تاریخ کی کتابوں میں شاید ہی کوئی ایسا ورق ہو، جس پر ان آمروںکے بارے میں کوئی مثبت اور توصیفی کلمات درج ہوں۔ وقت اتنا بدل گیا ہے کہ آخری مارشل لا ایڈمنسٹریٹر عدالتوں اور کچہریوں میں خوار رہا اور آج وہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا جہاں اس نے نو برس حکمرانی کی تھی۔ تاریخ میں زندہ وہی رہے گا جو ماضی کی نا قابل رشک تاریخ کو مسترد کرتے ہوئے ایسی روشن مثالیں قائم کرے گا جو نہ صرف پاکستان کی سلامتی اور بقا کی ضامن ہوں ، بلکہ ملک کو فتنہ و فساد کی سیاست سے نکال کر، امید ، یقین اور استحکام کی راہ پر ڈالے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہی کام کیا ہے ۔
انکے اس اقدام کو تاریخ میں برسوں یاد رکھا جائے گا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت بھی اپنی خود احتسابی کرے گی اورا یسے اقدامات سے گریز کرے گی ،جس سے فوج جیسے ادارے میں تشویش پیدا ہو۔ لازم ہے کہ سول اور ملٹری قیادت 10 مئی کی پیش رفت کو ایک منظم حکمت عملی میں ڈھالیں۔ تاکہ آئندہ کسی طرح کی بد گمانی ماحول کو خراب نہ کرسکے۔وزیر اعظم نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ وہ بڑے تلخ تجربوں سے گزر چکے ہیں۔ ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کےپل صراط پر کیسے چلا جاتا ہے۔ جہاں تک جنرل باجوہ کا تعلق ہے ، انہوں نے ایک نئے خوبصورت عہد کا دروازہ کھول دیا ہے۔ جو سول ملٹری تعلقات کو آئین پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے نہایت ہی قابل تحسین اقدام ہے۔ ویل ڈن جنرل قمر جاوید باجوہ۔

.
تازہ ترین