• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک سال باقی ہے اسکے باوجود حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے معدے مروڑ زدہ ہوتےچلے جارہے ہیں انھیں ساون کے اندھے کی مانند ہر طرف انتخابات نظر آرہے ہیں۔گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی نے اچانک ہی اس خیال باطل کے تحت لاہور کو تختہ سخن بنانے کا طفلانہ فیصلہ کرڈالا اور کچھ تو ملا نہیں پھر مزاحیہ ترین اور غیر حقیقی موضوع لوڈشیڈنگ بنا لیا ۔ ناصر باغ لاہور میں ڈیڑھ سو لوگوں کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئےسندھ سےسید خورشید شاہ، مغربی پنجاب سے قمر الزمان کائرہ اور لاہور سے بیرسٹر اعتزاز احسن نے دل کے پھپھولے انڈیل ڈالے۔ایسامحسوس ہورہا تھا کہ مخالفت برائے مخالفت کے وائرس سے تمام مقررین اس قدر مغلوب ہوچکے تھے کہ دروغ گوئی کا نیا عالمی ریکارڈقائم کرنے کے درپے تھے۔خورشید شاہ نے تو جھوٹ بولنے میں عمران خان کو شکست فاش دینے کی کوشش ناتمام کی کہ زرداری دور میں اتنی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی جتنی آج نواز شریف دور میں ہورہی ہے۔وہ یقیناًبھول گئے ہیں لیکن عوام نہیں بھولے جب زرداری دور میں انڈسٹری سیکٹر کیلئے بجلی سرے سے ہی بند کردی گئی تھی۔انھوں نے یہ بھی غلط کہا کہ نواز شریف این ایف سی ایورڈدینے کیلئے تیار نہیں۔وہ بھول گئے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کی مکمل قبولیت کا تمام تر کریڈٹ میاں نواز شریف کو ہی جاتا ہے۔نوازشریف ویلفیئر فنڈ کی تجویز دینے والے خورشید شاہ کیلئے عرض ہے کہ وہ پہلے سندھ کو آصف زرداری انڈومنٹ فنڈ سے تو نجات دلائیں جس میں روپیہ کی دھڑا دھڑا منتقلی جاری و ساری ہے۔ انھیں آج ریلوے کی یاد ستا رہی ہے کہ یہ گھاٹے میں چل رہی ہے۔ عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ آپکے دور حکومت میں ریلوےپلیٹ فارموں پر الو پورے پانچ سال بولتے رہے۔ مسافر ریلوے اسٹیشن آنا ہی ترک کر گئے تھے۔ ٹرینیںگھنٹوںگھنٹوں پلیٹ فارم پر نہیںآتی تھیں۔چلتی تھیں تو راستہ میں انجن جواب دے جاتے تھے۔ ٹرینوںمیں صفائی کی صورتحال ناگفتہ بہ ہوچکی تھی۔ ریلوے آمدنی کی ریڑ ھ کی ہڈی یعنی کارگو سیکشن تو سرے سے ہی بند کردیا گیا تھا ۔موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے آج ریلوے اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی ہے۔جب ن کی حکومت آئی تو خواجہ سعد رفیق نے ریلوے بحالی کا چیلنج قبول کرتے ہوئےکمر باندھ لی ۔انھوں نے دن رات ایک کرکے ریل گاڑیوں کووقت کی سوئیوں سے باندھ دیا ۔آج ٹرین کا تاخیر سے آنا ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے تاآنکہ کوئی ایمرجنسی نہ ہو۔آن لائن بکنگ اور سفری سہولتوں کو بہترین سطح پر لے آئے ہیں۔آج عوام بہت خوش ہیں اور مکمل اعتماد سے ریل گاڑیوں پر سفرکررہے ہیں۔سامان کی نقل و حمل کرنے والے دوبارہ ریلوے کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں اور اپنے سامان کی نقل و حمل کیلئے ریلوے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔لگتا ہے کہ کائرہ صاحب اینکر پرسن بننے کے بعد اداکاری کا کورس کررہے ہیں کہ ناصر باغ میں پنجابی زبان میں تقریر کرنا شروع کردی ۔ہر مکالمے پر وہ داد کے ڈونگرے وصول کرنے کیلئے اپنے ساتھیوں کی طرف رجوع کرتے رہے ۔وہ پوچھتے رہے شہباز شریف کیتا کی اے ؟
شہباز شریف صاحب نے کیا کیا ہے اس کا شہرہ تو چین تک بھی جاپہنچا ہے جہاں وہ انھیں پنجاب اسپیڈ کے نام سے جانتے ہیں اور یہی بہت کافی ہے انکے کریڈٹ کیلئے۔لیکن آپ میرے چند سوالوں کاجواب دیں کہ پیپلز پارٹی حکومت نے سابقہ دور حکومت میں پورے ملک اور موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ نے سندھی عوام کیلئے کونسی دودھ کی نہریں بہا دی ہیں ؟ ہر سال ترقیاتی منصوبوں کی مد میں اربوں روپیہ سندھ کے شہروں خصوصاً کراچی،حیدر آباد، لاڑکانہ،نوابشاہ اور زیریں سندھ کیلئے جاری ہوتا ہے وہ کہاں لگایا گیا ؟ کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ پچھلے پانچ سالوں میں کراچی کیلئے کیا کیا؟ صرف یہی بتا دیں کہ کراچی کا کوڑا کیوں نہیں اٹھایا؟ کراچی کو پینے کا پانی کیوں نہیں دیا جاتا؟ تھوڑی سی بارش ہوتی ہے تو کراچی کی سڑکیں نہریں کیوں بن جاتی ہیں؟وہ لاہور ،اسلام آباد اور ملتان کی میٹرو بسوں پر بے جا تنقید تو بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں میرا ان پیپلزپارٹی رہنمائوں سے سوال ہے کہ انکا اپنا طرز سیاست اور طریقہ حکومت کیا ہے کہ کراچی اور حیدر آباد و دیگر سندھ کے شہروں میں عوام بھیڑ بکریوں کی مانندزمانہ قبل مسیح کی بسوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں؟وہ یہ بھی بتائیں سندھ کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے کی بجائے کہاں بھیجا رہا ہے؟ناصر باغ میں کی جانے والی اپنی تقریر میںخورشید شاہ بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ پاکستان اسٹیل مل کے معاملات موجودہ حکومت نےخراب کئے ہیں۔میں انھیں یاد دلاتی ہوں کہ موجودہ حکومت نے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اسٹیل مل کے معاملات خراب نہیں بلکہ بد ترین بنائے اور اس سطح پر پہنچا دئیے ہیںجہاں سے واپسی آسانی سےانتہائی مشکل ہوچکی ہے۔پی آئی اے بھی پیپلز پارٹی کےکارناموں کی وجہ سے ہی مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔سی پیک کو اپنا منصوبہ قرار دینے والے پیپلزپارٹی رہنمائوں سے سوال ہے کہ اگر یہ انکا ہی منصوبہ تھا تو انھیں یہ منصوبہ شروع کرنے سےکس نے روکا تھا؟وہ تو انھوں نے کبھی بتایا ہی نہیںاب چیخ چیخ کر جھوٹا دعو یٰ کر رہے ہیں یہ تو ہمارا ہے۔بے نظیر بھٹو کے نام پر ووٹ لینے والوں نے سندھی عوام کو سفری،طبی ،علمی اور حفاظتی سہولتیں تو دی نہیں بلکہ ان سے تو یہ بھی نہیں ہو پایا کہ اپنے ہی دور حکومت میں رہتے ہوئے وہ بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو پکڑ ہی لیتے ۔سب جانتے ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو کو کس نے قتل کروایا۔بے نظیر بھٹو کے قتل سے جڑے افراد کیسے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
عاصم حسین نے کس کے کہنے پر تمام مبینہ افعال سرانجام دئیے۔ٹپی مافیا کو کس کی اشیر باد حاصل تھی؟کیا سید خورشید شاہ کبھی اس پر بھی روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟کیا وہ یہ بھی بتانا پسند کریں گے کہ پچھلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے زرداری کی تصویر انتخابی مہم میں استعمال کرنا کیوں بند کردی تھی ؟عرض کریں گے تو شکوہ ہوگا شاہ صاحب آپ کب بولیں گے کہ چاروں صوبوں کی زنجیر پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کس نے کیا؟ آپ بتائیں یا نہ بتائیںسارا پاکستان جانتا ہے۔

.
تازہ ترین