• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ مستونگ:دہشت گردی کیخلاف اجتماعی کوشش ضروری

بلوچستان کے علاقے مستونگ میں گرشتہ روز دہشت گردی کی ایک خوں ریز کارروائی میں چھبیس افراد کی شہادت نیز سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری سمیت بیالیس افراد کا زخمی ہونا بلاشبہ ایک بڑاقومی سانحہ ہے ۔اس خود کش حملے کی ذمہ داری بدنام زمانہ تنظیم داعش نے قبول کرلی ہے۔ حملے کا ہدف مولانا حیدری کا قافلہ خصوصاً ان کی گاڑی تھی جو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی منزل کی طرف جارہے تھے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم ، آرمی چیف اور دیگر ممتاز شخصیات کی جانب سے اس بزدلانہ کارروائی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف حتمی کامیابی تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جبکہ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے بالکل درست طور پر اس حملے کو ریاست پاکستان، پارلیمنٹ اور پوری پاکستانی قوم پر حملہ قرار دیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعدمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ دہشت گردی کی جنگ مشرف دور میں پاکستان پر مسلط کی گئی جس کا ہمیںاب تک ملک کے اندر بھی اور باہر بھی سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی مسلسل کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی ضروری آئی ہے مگر یہ جنگ فوری طور پر ختم نہیں ہوسکتی، دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی ۔ جناب رضا ربانی نے اپنی گفتگو میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے متبادل ماڈل کی ضرورت کا اظہار بھی کیا جس پر سوچ بچار یقینا بہت ضروری اور وقت کا عین تقاضا ہے۔ اس حوالے سے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ داعش کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کی تشکیل کیلئے آئی ایس پی آر کے مطابق گزشتہ روز ہی جی ایچ کیو راولپنڈی میںپاکستان ، افغانستان اور امریکی فوج کےنمائندوں کا ایک ٹو اسٹار سیکورٹی اجلاس منعقد ہوا جس میں افغانستان کے وفد نے ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل حبیب حصاری اور اتحادی فوجوں کے وفد نے امریکہ کے میجر جنرل کرسٹوفر ہاس کی قیادت میں شرکت کی جبکہ پاکستان کی نمائندگی ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کی۔اس سہ فریقی اجلاس میں تینوں ملکوں کے مندوبین نے اپنے اپنے علاقوں میں داعش کو اجتماعی کوششوں سے شکست دینے کا فیصلہ کیا۔جبکہ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے نمائندوں نے چمن میں ہونے والے حالیہ افسوسناک واقعات کے اعادے سے بچاؤ اور باہمی اعتماد، احترام اور تعاون کی فضا کو فروغ دینے اور مؤثر بارڈر مینجمنٹ کیلئے دونوں ملکوں کی افواج میں رابطے بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔ تاہم ایسی کوششیں اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب ان میں شامل تمام فریق ایک دوسرے کے ساتھ صحیح معنوں میں پوری طرح نیک نیت ہوں اور دہشت گرد تنظیموں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی سے واقعتا کنارہ کشی پر تیار ہوں۔گزشتہ روز بھی کرم ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگائے جانے کے دوران افغان سیکوریٹی اہلکاروں نے پاک فوج پر فائرنگ کی جس سے بے اعتمادی کی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ تحریک طالبان اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافات سے واضح ہے جن کے مطابق افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی خفیہ ایجنسی را ایک دوسرے کیساتھ مل کر کام کرتی ہیں ، اس مقصد کیلئے دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کیخلاف استعمال کیا جارہا ہے، دوسری جانب کابل حکومت بھی پاکستان کے خلاف مسلسل ایسے ہی الزامات عائد کرتی رہتی ہے۔ دہشت گردی کے چیلنج سے حتمی طور پر نمٹنے کیلئے لازمی ہے کہ خطے کا کوئی ملک بھی کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں کی سرپرستی نہ کرے، خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کی یہ لازمی شرط ہے جس کے بغیر علاقائی امن اور استحکام کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ یہ بات بھارت کو بھی سمجھائی جانی چاہئے اور اس کیلئے امریکہ کو اپنا کردار نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنا چاہئے۔

.
تازہ ترین