• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اپریل کی ایک خوشگوار شام تھی، سنہ تھا 1983، برطانوی سفارت خانے کا ڈیفنس اتاشی جو کہ ایک حاضر سروس کرنل تھا، اپنی بیوی کے ساتھ اسلام آباد کے ایک ریستوران میں بیٹھا سرعام شراب پی رہا تھا، شراب پر پابندی کے قوانین اُس زمانے میں بہت سخت تھے، کرنل کی اِس حرکت کی اطلاع جواں سال ضلعی مجسٹریٹ تک پہنچی جس نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر کرنل کو اس کی بیوی سمیت گرفتار کیا اور تھانے میں پرچہ درج کروا دیا۔ اُس زمانے میں حواس باختہ میڈیا نہیں تھا اس لئے ملک میں ہیجان برپا نہیں ہوا البتہ سفارتی استثنیٰ کی دُہائی دی گئی جسے مجسٹریٹ نے کمال اطمینان سے رد کر دیا۔ اگلے روز ’’معمول کی کارروائی‘‘ کے مطابق اس گرفتاری کی اطلاع دفتر خارجہ کو دے دی گئی اور ساتھ میں ایک کاپی وزارت داخلہ کو بھی جڑ دی گئی۔ واقعہ کے فورا ً بعد برطانوی ہائی کمیشن نے سیشن جج کو ضمانت کی درخواست جمع کروائی، جج نے ضمانت منظور کرتے ہوئے انگریز جوڑے کو رہا کر دیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ابھی تک اس کیس میں ہاہاکار نہیں مچی تھی مگر دو ہفتوں کے بعد اِس کی خبر لندن ٹائمز نے یوں شائع کی کہ ہاؤس آف لارڈز کا ایک تین رکنی وفد پاکستان جا کر یہ استدعا کرے گا کہ ملزمان کو سزا کے طور پر کوڑے نہ لگائے جائیں۔ اُس وقت کے وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ نے ضلعی مجسٹریٹ کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا اور صدر کو اس کی شکایت کی مگر اس کے باوجود قانون کی راہ میں کوئی رخنہ اندازی نہیں کی گئی حالانکہ اُس وقت افغان جنگ اپنے جوبن پر تھی اور برطانیہ اتحادی تھا۔ پھر وہ ہوا جس کا ہم آج کل تصور بھی نہیں کر سکتے، تاج برطانیہ نےاس یقین دہانی کے ساتھ باقاعدہ معافی مانگی کہ وہ اپنے افسر کو ’’ڈسپلن‘‘ کریں گے مگر اس کے باوجود سیکرٹری قانون نے مقدمہ واپس لینے کے ضمن میں یہ رائے دی کہ اسلامی قانون کے مطابق اسے واپس نہیں لیا جا سکتا تاہم ضلعی مجسٹریٹ نے سیکرٹری قانون کی رائے سے اس بنیاد پر اتفاق نہیں کیا کہ یہ حد کا نہیں بلکہ تعزیر کا معاملہ ہے اور پھر بطور حکومت کے نمائندے (جس کا مجسٹریٹ کے پاس اضافی چارج تھا) یہ مقدمہ واپس لے لیا۔ وعدے کے مطابق برطانوی حکومت نے اُس کرنل کا کورٹ مارشل کیا ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے عہدے پر اگلے چار برس تک کام کرتا رہا، کسی نے اس کا تبادلہ نہیں کیا ۔ یہ واقعہ کل ایک خبر پڑھ کر یاد آیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان میں سول سروس رو بہ زوال ہو چکی ہے، امسال سی ایس ایس کا جو نتیجہ آیا ہے اس میں 199اسامیوں کیلئے صرف 202امیدوار پاس ہو سکے، پہلی تین پوزیشنز لڑکیوں نے حاصل کیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1996ء میں جب میں نے یہ امتحان دیا تھا اس وقت تقریباً 200اسامیوں کیلئے چھ سو سے زائد امیدواروں نے امتحان پاس کیا تھا۔ اس خبر سے ایک مغالطہ یہ جنم لے رہا ہے جیسے سی ایس ایس کے امتحان کا معیار گرگیا ہے جبکہ حقیقت میں تعلیم کا معیار گرا ہے جس وجہ سے لوگ یہ کڑا امتحان اُس تعداد میں اب پاس نہیں کرپاتے جیسے پہلے کر لیتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ سول سروس اب وہ نہیں رہی جو اُس زمانے میں تھی جب ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ غیرملکی ڈیفنس اتاشی کے خلاف پرچہ دے کر اسے حوالات میں بند کر دیتا تھا کہ قانون کی پاسداری اُسے سکھائی گئی تھی۔ مگر زوال صرف سول سروس کا نہیں پوری سوسائٹی کا ہوا ہے۔ صحافت سے لے کر طب تک اور وکالت سے لے کر سرکار کی نوکری تک، ہم میں سے کوئی اپنا کام محنت سے کرنےکا روادار نہیں ہے، اہلیت تو بعد میں آتی ہے۔
1993ءمیں جس اخبار میں یہ خاکسار کرائم رپورٹر تھا، اس کا اصول یہ تھا کہ جرم کی ہر بڑی خبر موقع پر جا کر کور کی جائے اور بڑی خبر سے مراد دو یا دو سے زائد افراد کا قتل یا ڈکیتی کے دوران قتل تھا۔ یہ درست ہے کہ اب اس اصول پر عمل کرنا قریبا ًناممکن ہو گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تحقیقی جرنلزم کی فاتحہ پڑھ لی جائے اور ہر واقعہ کی خبر ٹی وی دیکھ کر فائل کر دی جائے۔ سینئر ڈاکٹر اب مرض کی تشخیص اس وقت تک نہیں کرپاتے جب تک سر کے بالوں سے لیکر پیر کے ناخنوں تک تمام ٹیسٹس نہ کروالیں اور جونئیر ڈاکٹر کا کام اب صرف ہڑتالیں کرنا اور مریضوں کو تڑپتے چھوڑ کر گپیں ہانکنا رہ گیا ہے، بھاڑ میں گیا وہ حلف نامہ جو قبل از مسیح میں کسی دانا نے طب کے پیشے کو عظیم قرار دے کر معالجوں کے لئے لکھا تھا، اب عظمت مریض کی جان بچانے میں نہیں اپنی ترقی کے لئے ہڑتال کرنے میں ہے۔ وکلا کی قابلیت تو آئے روز ہم مختلف ویڈیو کلپس میں دیکھتے رہتے ہیں جن میں یہ روح پرور منظر تو کئی مرتبہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس میں قانون کے یہ علمبردار کبھی اپنے آپس میں ہی گتھم گتھا ہو جاتے ہیں اور کبھی جج پر چڑھ دوڑتے ہیں، اہلیت کا عالم یہ رہ گیا ہے کہ ایک ضمانت کی سادہ درخواست بھی درست انگریزی میں نہیں لکھ سکتے اور اگر کسی کمی کی نشاندہی جج صاحب کردیں تو بے نیازی سے جواب دیتے ہیں کہ چھوڑیں ان باریکیوں کو آپ بس ضمانت دیں۔
ان حالات میں صرف سول سروس کا ماتم جائز نہیں، جہاز جب ڈوبتا ہے تو اُس کے ساتھ سب ڈوبتے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ سوسائٹی کے تمام شعبوں میں زوال آجائے اور سول سروس اس سے بچ جائے۔ سول سروس کا حال بھی باقی شعبوں جیسا ہے، اچھے بھلے گریڈ کے افسران ایک سادے سے مسئلے کی پریزنٹیشن ڈھنگ سے نہیں بنا سکتے، فائل پر قواعد کے مطابق نوٹنگ نہیں کر سکتے اور جو افسران یہ دونوں کام کرنے کے اہل ہوتے ہیں بدقسمتی سے وہ کسی کام کو قاعدے قانون کے مطابق کرنے کے لئے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں اعلیٰ سطح کے صحافی، وکیل، ڈاکٹر یا سرکاری افسر نہیں رہے، اب بھی ایسے ایسے قابل اور محنتی افراد ہر شعبے میں موجود ہیں جن کی وجہ سے کاروبار مملکت چل رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے انمول رتن اب روزبروز کم ہوتے جارہے ہیں۔ سی ایس ایس کا امتحان وہی ہے مگر اسے پاس کرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے، ایم بی بی ایس کا امتحان بھی وہی ہے مگر اس میں اعلیٰ نمبر لینے والے محنتی ڈاکٹر اب دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں، وکالت کا بھی یہی حال ہے اور دیگر شعبوں کے زوال کی بھی یہی کہانی ہے۔ پہلے ہم لوگ رونا روتے ہیں کہ نوکری نہیں ملتی اور جب نوکری مل جاتی ہے اس کے بعد وہ کام کرنے کے ہم روادار نہیں جس کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ 1983ءمیں ایک انگریز کرنل کو ہمارا ضلعی مجسٹریٹ اس وجہ سے ناک کی لکیریں نکلوا دیتا ہےکہ وہ سرعام شراب نوشی پر جرم کا مرتکب ہو رہا تھا، آج چونتیس برس بعد ہم ایک آئی جی سے بھی اس ہمت کی توقع نہیں کر سکتے ۔
زوال صرف اہلیت اور تعلیم کا ہی نہیں، اخلاقی بھی ہے۔



.
تازہ ترین