• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبر صرف اتنی ہے کہ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری پر خود کش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے مگر26 دوسرےلوگوں کے ساتھ ان کا پرسنل سیکرٹری افتخار مغل بھی شہید ہو گیا۔ افتخار مغل کی شہادت میرے لئےبہت تکلیف دہ تھی ۔ابھی تک میں اُس کے جنازے کو کندھا دینے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پا رہا ۔میں نے اپنے دوست تنویر حسین ملک کو فون کیا وہ بلک بلک کر رو رہا تھا ۔میں پھر کسی اور دوست کو فون نہیں کر سکا ۔ارشاد امین نے فون پر جب مجھے یہ سفاک اطلاع دی تو کافی دیر میں بے یقینی کے عالم میں دیوار کو دیکھتا رہا ۔یہ میرا دوست تھا جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ سوچتا ہوں کہ وہ جو ساٹھ ہزار پاکستانی اسی جنگ میں شہید ہوئے ہیں ۔وہ کسی کے دوست تھے وہ بھی کسی کے بھائی تھے ۔وہ کسی کے بیٹے تھے ۔آج پہلی باراس شدت سے مجھے ان سب کے دکھ کا احساس ہوا ۔آج پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ دہشت گردی کے سائے کتنے خوفناک ہیں ۔
گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد مجھے ایک امریکن نے کہا تھا ۔’’ہمارے جو تین ہزار لوگ اس سانحہ میں موت کی تاریکیوں میں اتر گئے ہیں ان میں ہر شخص کے اوسطاً ایک سو لوگ تعلق والے تھے جنہیں بہت زیادہ تکلیف ہوئی یعنی تین لاکھ امریکن ایسے موجود ہیں جوانصاف مانگتے ہیں ۔اپنے پیاروں کے قتل کا انصاف ‘‘ میں اسی تناسب سے اگر دیکھوں توپاکستان میں جو ساٹھ ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں ان کے ساٹھ لاکھ لواحقین ایسے ہیں جو انصاف چاہتے ہیں ۔مگر پاکستان میں جو چیز سب سے زیادہ نایاب سمجھتی جاتی ہے وہ یہی انصاف نامی چیز ہے ۔دہشت گردی کی جنگ ہم جیت چکے ہیں مگر دہشت گرد ہیں کہ آئے دن آئینہ دکھا جاتے ہیں ۔لگتا ہے ابھی دہشت گردوں کے کچھ ہمدرد ،کچھ سہولت کار یہیں کہیں موجود ہیں ۔یقیناً ہمیں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گرفتار دہشت گردوں کو رہائی دلاتے ہیں ۔ان کی مکمل بیخ کنی نہیں ہونے پا رہے۔اب ضرورت ہے کہ ایسے افراد کی ہی بیخ کنی کی جائے ۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے شاید اسی بات کا اظہارکسی میٹنگ میں بھی کیا تھا ۔انہیں اس سلسلے میں کوئی اہم قدم ضرور اٹھانا چاہئے ۔
ہم کتنے اور افتخار مغل قربان کریں گے ۔یقین کیجئے ایسا شاندار افسر شاید ہی سینیٹ کو کبھی میسر آئے مگر کسی کو اس بات کی پروا ہی نہیں کہ کچھ لوگ ابھی تک اپنے جسموں سے بارود کے ڈھیر باندھ کر کونوں کھدروں سے نکل آتے ہیں ۔دہشت گردوں نے اب داعش کا روپ دھار لیا ہے ۔یہ ابھی تک ہماری گرفت سے باہر ہیں ۔مذہب کے نام پرموت کا کھیل جاری ہے ۔خدا ہی جانتا کہ ابھی ہمیں اور کتنے قبریں شمار کرنی ہیں ۔ابھی مائوں نے کتنے جوان بیٹوں کے لاشوں پر بین کرنے ہیں ۔کتنے باپوں نے اپنے بچوں کے لاشے اپنے کاندھوں پر اٹھانے ہیں ۔ابھی بہنوں نے کتنے بھائیوں کا ماتم کرنا ہے ۔ابھی کتنے دوستوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں قبروں میں اتارنی ہیں ۔وہ بھی قومیں ہیں جہاں ایک بار دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو انہوں نے دوسری بار نہیں ہونے دیا۔ہم کیوں دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے باوجود بھی اکا دکا واقعات کو روکنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ بلوچستان میں ہوا ہے ۔دراصل صدیوں سے بادشاہ انسانی خون کی قیمت پراپنے خزانے بھرتے چلے آرہے ہیں ۔بس خزانوں کی زمینیں اور شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ہوسِ ملک گیری کے طریقے بدل گئے ہیں ۔ انسان کا ماضی ٹھوس شکل میں سفید اور زرد سونے کی ایک بڑی ’’لوٹ ‘‘کی داستان ہے ۔ اور انسان کا حال بہتے ہوئے کالے سونے کے خزانوں اور دوسری قیمتی معدنیات پر قبضے کا قصہ ہے۔بلوچستان کوبھی کئی برسوں سے اسی قصے کا حصہ بنایا جارہا ہے۔تیل اور گیس کے خزانوں پر تو پہلے سے عالمی لٹیروں کی چشمِ ہوس گیر لگی ہوئی تھی۔اب گوادر کی بندرگاہ کو بھی سونے کی کان کہا جا رہا ہے اور مجھے اس دروازے پر امریکہ، بھارت،اسرائیل اور کئی دوسرے ممالک کی دستک صاف سنائی دے رہی ہےمگر ہم سب کے کانوں میںمیل جم چکی ہے ہمیں کچھ سنائی ہی نہیں دیتا۔کانوں کی میل سے ایک واقعہ یاد آرہاہے۔لوہاری گیٹ کے باہر مجھے ایک شخص ملا۔کہنے لگا ‘‘مجھ سے کان صاف کرا لیجئے ۔میں بڑے اچھے طریقے سے کان صاف کرتا ہوں ‘‘۔
میں نے غور سے دیکھا تو اس کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا۔مجھے اگلے ہی لمحے یاد آگیا کہ اس شخص کیساتھ تو برسوں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھتا رہا ہوں۔یہ پاکستان کا اچھا بھلا مشہور ادیب ہے۔اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ تم یہ لوگوں کے کان کیوں صاف کرتے پھر رہے ہو۔اچھے بھلے لکھنے والے آدمی ہو۔ تمہیں کہیں بھی نوکری مل سکتی تھی۔ کہنے لگا میں پیسوں کے لئے تو لوگوں کےکان صاف نہیں کرتا۔ دراصل اس قوم کے کانوں میں بڑی میل جم گئی ہے ۔لوگوں کو کوئی بات سنائی ہی نہیں دیتی ۔ اب دیکھو انیس سو اڑتالیس میں جو مکان مجھے الاٹ ہوا تھااس کا قبضہ ابھی تک مجھے نہیں ملا۔میں کونسی عدالت میں نہیں گیا ۔کس عدالت کا دروازہ میں نے نہیں کھٹکھٹا یا مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔بس بات میری سمجھ میں آگئی کہ اس قوم کے کانوں سے میل نکالنی بڑی ضروری ہے ۔بات میری سمجھ میں بھی آگئی تھی کہ انصاف کی تلاش میں بیچارہ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔مگر یہ طے ہے کہ پاکستانیوں کو اپنے کانوں سے میل نکالنی ہوگی ۔ اپنی آنکھوں پر بندھی ہوئی تعصب کی پٹی اتارنی پڑے گی ۔تمام دہشت گردوں کو ایک نگاہ سےدیکھنا ہوگا ان کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کرنا ہوگا ۔نیشنل ایکشن پلان کی رفتار بہت تیز کرنا ہوگی ۔ہماری ارباب ِ اختیار کی عادت ہے کہ جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو وہ اس کی مذمت کردیتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ جنہوں نے ایسے واقعات کا سدباب کرنا ہوتا ہے وہ مذمت پر گزارا کرلیتے ہیں ۔مذمت تو وہ لوگ کیا کرتے ہیںجو خود کچھ نہیں کر سکتے ۔جمعیت علمائے اسلام نے اتوار کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔ کاش وہ یہ اعلان اس دن کرتے جب پہلا پاکستانی اس دہشت گردی کا شکار ہوا تھا۔



.
تازہ ترین