• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو بڑوںنے اپنی ملاقات میں بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور جسے ان ہونی کہا جا رہا تھا اُسے خوش اسلوبی سے ہونی میں بدل دیا۔ عسکری ادارے کے تحفظات دور کرنے کیلئے وزارتِ داخلہ نے فوری نوٹیفکیشن جاری کیا اور سویلین حکومت کے خدشات و اعتراضات دور کرنے کیلئے فوج نے ٹویٹ واپس لے لیا ،ڈی جی آئی ایس پی آر کے یہ الفاظ واضح اور اطمینان بخش ہیں کہ ’’فوج آئین کی بالا دستی اور جمہوری عمل کی حمایت کیلئے پر عزم ہے وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں وہ جو بھی حکم دیں اس پر عمل ہونا چاہیے پاکستانی فوج ریاست کا مضبوط ادارہ ہے اور ہم دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جمہوریت کیلئے کام کریں گے فوج جمہوریت کی اتنی ہی تائید کرتی ہے جتنی دیگر پاکستانی کرتے ہیں اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوریت کیلئے جو بھی بہتر ہو گا ہم وہ کرتے رہیں گے ‘‘۔’’وزارتِ داخلہ نے پیرا 18 کے مطابق مکمل آرڈر کر دیا ہے جس پر ہم حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہیں‘‘ ڈان لیکس میں مریم نواز کے رول پر سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا گیا کہ ’’ڈان لیکس کا معاملہ عدالتی کمیشن میں تھا کمیشن نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے اس میں اگر مریم نواز کا نام نہیںہے تو کمیشن نے یہی بہتر سمجھا ہے‘‘۔الحمدللہ ثُم الحمد للہ ڈان لیکس کا رائی جیسا نان ایشو جسے خواہ مخواہ پہاڑ بنا دیا گیا تھا بالآخر ریزہ ریزہ ہو گیا ہے ۔ عرصہ دراز سے مایوسی کی خبریں سنتے سنتے ایک نوع کی بیزاری و اکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی شکر ہے کہ اتنی اچھی خبر تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئی ہے اور ہمیں اس کی امید بھی تھی۔ بلاشبہ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم اور قومی سلامتی کی سوچ رکھنے والوں کی کامیابی ہے یہ آئین اور جمہوریت کی فتح ہے اپنے قارئین سے معذرت کے ساتھ اگر وہ اسے بڑا بول نہ کہیں تو ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر اس اظہارِ خیال کو جو ٹویٹ کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کیا گیا ہے واقعی اس کی روح کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے آنے والے برسوں میں بالفعل اپنا لیا جاتا ہے تو اہل وطن کیلئے یہ ایک نیا میگنا کارٹا اور نیا یومِ آزادی قرار پا سکتا ہے ۔
اس کا کریڈٹ بلاشبہ وزیراعظم کی فراست ، متانت، برداشت، بردباری و عاجزی ، تحمل ، ٹھہراؤ اور سب سے بڑھ کر تجربات سے سیکھنے کے عمل کو جاتا ہے جناب وزیراعظم یہ آپ کے صبر کا پھل ہے طاقتوروں کی خوشامد ہماری فطرت میں نہیں اسلئے شعور نہیں مانتا کہ کسی لٹھ بردار کیلئے کلمہ خیر ادا کریں لیکن جنرل باجوہ کا رول جمہوریت ، آئین اور امن و سلامتی کے حوالے سے نسبتاً قابل ہے کہ ہم اُن کیلئے دعائے خیر کریں خدا وند انہیں اپنی اس جمہوریت اور انسان نوازی کی سوچ پر استقامت نصیب فرمائے کہ اسی میں ملک و قوم ہی نہیں خود ان کے اپنے ادارے کی بھی نیک نامی اور بھلائی ہے ۔ آخر ہم ہی نے یہ قسم کیوں کھا رکھی ہے کہ دنیا جہان میں اپنے ادارے کو بری پہچان دلوائیں ۔ سمجھ بڑوں بڑوں کو آ جاتی ہے لیکن پاپڑ بیلنے اور دھکے کھانے کے بعد جسے شک ہے وہ اولین و آخرین دونوں مرتکبین (ایوب اور مشرف) کے وہ خیالات و بیانات ریکارڈ سے نکلوا کر پڑھ لے جو ہر دو نے اپنے آخری دنوں میں جاری فرمائے تھے۔ آئین شکنی کے حوالے سے ہی نہیں بھارت دشمنی کے تناظر میں بھی سب کچھ قابل ملاحظہ ہے ۔
جنرل باجوہ کے اتنے بولڈ اقدام کے بعد کٹھ پتلیوں کا کاروبار ویسے ہی بند ہو جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آئینی و جمہوری اصولوں پر عملداری کے حوالے سے قابلِ قدرو فخر روایات بڑی حد تک مفقود ہیں آج جس اچھی روایت کا آغاز ہو رہا ہے اس کی مضبوطی کا اہتمام بڑی حد تک ہمارے میڈیا کے ذمہ ہے ۔ تمام میلی اور کالی بھیڑوں کو چاہئے کہ وہ نہا دھو کر نہ صرف یہ کہ اپنی میل اور کالک دور کر لیں بلکہ اپنا جمہو ری رویہ اور ورلڈ ویو عصری تقاضوں کی مطابقت میں ازسرِ نو تشکیل دیں ۔ سابق کھلاڑی کی پارٹی نے سوشل میڈیا پر عسکری ادارے کے متعلق جو تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا ہے سمجھنے والوں کیلئے اس میں بہت کچھ ہے ۔ ایسے ہی لوگ ہمیشہ سے وطنِ عزیز میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں معروف جمہوری راستے سے حصولِ اقتدار چونکہ محنت طلب اور صبر آزما کام ہے اس لیے یہ لوگ شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہوئے ایک مضبوط قومی ادارے کو ہمیشہ سے اپنے مذموم مقاصد کا ذریعہ خیال کرتے ہیں ۔ رہ گئے بیرسٹر صاحب تو انہیں ہمارا مشورہ ہے کہ وہ کھل کر کھیلنے کیلئے بلا جھجک سابق کھلاڑی کی پارٹی میں شامل ہو جائیں کیونکہ ان کی اپنی پارٹی قیادت تو ان کی لائن پر آنے سے رہی۔
ہم یہاں یہ واضح کر دیں کہ ڈان لیکس پر جو فیصلہ ہو ا ہے ہمارے نقطۂ نظر سے یہ ہر گز مثالی یا معیاری نہیں کیونکہ وسیع تر زمانی حقائق کی روشنی میں ڈان نے جوکچھ چھاپا اس میںلیکس والی کوئی بات ہی سرے سے نہیں تھی جب جرم ہی نہیں ہوا تو پھر سزائیں کیسی؟ ہم تو مخصوص پسِ منظر میں اس کی ستائش کر رہے ہیں ورنہ ہماری اصولی و دیانتدارانہ رائے میں آئیڈیل حل یہ ہے کہ عسکری ادارے کو اعتماد میں لے کر تینوں قابلِ صد احترام شخصیات کو 90 روز کے بعد یا تو اپنی اصل ذمہ داریوں پر فائز کر دیا جائے یا با امرِ مجبوری ان کے عہدے بدل دیے جائیں APNS کو کسی نوع کا ریفرنس بھیجنا بنتا ہی نہیں ہے ۔ جناب پرویز رشید کی یہ دلیل کتنی وزنی ہے کہ آئندہ ماس کمیونیکشن کے شعبے میں خبر رکوانے کا مضمون بھی شامل کروا دیا جائے وہ تو اتنے ذمہ دار انسان ہیں کہ ڈان لیکس کا شور بپا ہونے کے بعد دو مواقع پر ہم نے مختلف حربوں سے انہیں خوب کریدا مگر مجال ہے کہ انہوں نے کوئی ایک اصلی پوائنٹ دیا ہو اتنی باریک بینی پر مبنی گفتگو کرنے والے انسان کو ناکردہ گناہ کی سزا سنانا ظلم ہے مگر کیا کیا جائے حالات کے اس جبر میں شاید یہی کچھ ممکن تھا مسئلہ ایگو اور ساکھ کا بھی ہے۔
مستونگ کے سانحہ کو سامنے رکھ کر دیکھیں اس وقت ہمارے عسکری ادارے کو ردالفساد کے علاوہ تینوں اطراف مختلف النوع چیلنجز درپیش ہیں بالخصوص ایرانی آرمی چیف نے حالیہ دنوں جو تلخ نوائی کی ہے وہ لمحۂ فکریہ ہے ہمارے ادارے کے اپنے مفادمیں ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر مبذول کرتے ہوئے دیگر تمام امور و معاملات بالخصوص خارجہ پالیسی کی تشکیل و عملداری یا انجام دہی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کو ادا کرنے دے۔ وطنِ عزیز اس وقت تعمیرو ترقی کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے چین میں ون بیلٹ ون روڈ انٹر نیشنل کانفرنس ہونے جا رہی ہے پینسٹھ اقوام کی شرکت سے اس کی اہمیت کا ادراک کیا جا سکتا ہے ہمیں تمام اقوام بالخصوص تینوں ہمسایہ ممالک سے دشمنی و منافرت کو خیر باد کہتے ہوئے نئے معاشی، سماجی اور سیاسی تعلقات کا آغاز کرنا ہو گا فائنل اتھارٹی کی حیثیت سے وزیر اعظم کا رول قومی قائد کا ہونا چاہئے وہ جس طرح اپنے چاروں وزرائے اعلیٰ کو لے کر گئے ہیں اس قومی وحدت پر مبنی سوچ کو اب وطنِ عزیز میں جاری و ساری ہو جانا چاہئے۔



.
تازہ ترین