• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں پاکستانی وفد اور چینی قیادت میں پاکستان میں تقریباً پانچ سو ملین ڈالر کے مزید سات اہم ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے مالی اور تکنیکی تعاون کے معاہدوں کا طے پاجانا واضح طور پر ایک خوش آئند پیش رفت ہے ۔ ان میں بھاشا ڈیم، گوادر ایئرپورٹ، حویلیاں ڈرائی پورٹ کی تعمیر ،ایم ایل ون شاہراہ کی اپ گریڈیشن، ایسٹ بے ایکسپریس وے، ریلوے ٹریک اور رعایتی قرضوں سے متعلق منصوبے شامل ہیں جبکہ چین کی جانب سے سی پیک کے تحت پاکستان میں چھپن ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پہلے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی ترقی کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کیلئے ہفتے کے روز چین پہنچے ہیں، اتوار اور پیر کو ہونے والے اس اجلاس میں انتیس سربراہان مملکت و حکومت شرکت کررہے ہیں جبکہ ایک سو تیس دیگر ملکوں نے اپنے اعلیٰ سطحی وفود اس اہم بین الاقوامی اجتماع میں شرکت لیے بیجنگ بھیجے ہیں۔ پاکستانی وفد میں وفاقی وزیر خزانہ، وزیر منصوبہ بندی و ترقی، وزیر ریلوے ، وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مشیر برائے امور خارجہ کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں جس سے واضح ہے کہ پاک چین تعاون برائے قومی تعمیر وترقی کے حوالے سے پورے پاکستان کے لوگ مکمل اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ چینی قیادت نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی شکل میں ترقی کے سفر میں پوری دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کا ایسا انقلابی تصور پیش کیا ہے جس سے خو د کو الگ رکھنا کسی بھی ملک کیلئے مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شمولیت کے خواہشمند ملکوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ون بیلٹ ون روڈ تصور کے تحت چین سی پیک کی طرح کے مزید کئی منصوبوں پر کام کررہا ہے لیکن سی پیک کی افادیت اور اہمیت اس کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کو اپنے محل وقوع کے باعث اس منصوبے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں انفرا اسٹرکچر کی بہتری ، توانائی کے بحران کا خاتمہ ، دہشت گردی کا قلع قمع اور دیگر بنیادی مسائل حل کیے جانے کو خود چینی قیادت ناگزیر تصور کرتی ہے ۔ چینی قیادت کے تعاون کا طریق کار بھی مغربی ملکوں سے مختلف ہے جن کی کوشش بالعموم یہ ہوتی ہے کہ جس ملک کی مدد کریں اسے اپنا دست نگر بنائے رکھیں لیکن چین اپنے دوستوں کو ٹیکنالوجی منتقل کرکے خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ تو اس کا تعلق بوجوہ وقتی مفادات سے بالاتر اور مخلصانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی قیادت انتہائی کشادہ دلی اور اپنائیت کے ساتھ پاکستان کی تعمیر و ترقی کی کوششوں میں شریک ہے۔ مغربی ملکوں کی طرح معاشی امداد کے نام پر سودی قرضے دینے کے بجائے چین پاکستان میں چھپن ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کرچکا ہے اور اس کی مالیت میں گزشتہ روز نئے معاہدوں کی شکل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چین کے اس فراخدلانہ تعاون سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں نظام مملکت، کلیدی اداروں ، تعلیم و تدریس، صنعت و زراعت اور زندگی کے تمام شعبوں کو تیزی سے ترقی یافتہ ملکوں کے معیار پر لایا جائے، چین اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کی طرح قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنا کر سو فی صد آبادی کو کم سے کم وقت میں حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ بنایا جائے ، تراجم کے ذریعے جدید علوم تک ہر پاکستانی شہری کی رسائی آسان بنائی جائے ، ہر سطح پر صرف میرٹ کو ترقی کی بنیاد ٹھہرایا جائے، کرپشن کے مکمل خاتمے کیلئے تمام معاملات میں شفافیت کا لازماً اہتمام کیا جائے اور احتساب کا ایسا بے لاگ کل وقتی اور خودکار نظام تشکیل دیا جائے جس کے دائرہ اختیار سے کوئی ادارہ اور فرد باہر نہ ہو ۔ ان امور کا اہتمام پاکستان کو ایک طفیلی ریاست ہونے کے تاثر سے محفوظ رکھنے اور اقوام عالم میں محترم اور باوقار مقام دلانے کیلئے ناگزیر ہے۔

.
تازہ ترین