• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے جاننے والے ایک صاحب ظہور احمد نے 1986 میں سینئر سول جج راولپنڈی کی عدالت میں وزارت دفاع وغیرہ کے خلاف ایک سول مقدمہ قائم کیا۔ یہ مقدمہ مدعی کی زمین کے قبضہ سے متعلق تھا۔برسوں عدالت کے چکر لگا کر اُن کی ملکیت ثابت ہوئی جبکہ قبضہ وزارت دفاع کے پاس ہی رہا۔ اس قبضہ کے خلاف مدعی ایڈیشنل سیشن کورٹ گئے جہاں سینئر سول جج کا فیصلہ برقراررکھا گیا۔ 1999 میںظہور صاحب نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ اُن کی زمین یا انہیں واپس کی جائے یا محکمہ اُسے باقاعدہ ایکوئر کر لے۔ کبھی ایک بہانہ تو کبھی دوسرا، مقدمہ لٹکتا رہا اور پھر آخر کار 2002 میں ہائی کورٹ نے ظہور احمد صاحب کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ محکمہ کو حکم ملا کہ یا تو مارکیٹ کے مطابق مدعی کو پیسہ دو یا زمین واپس کر دو۔ لیکن محکمہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 2004 میں سپریم کورٹ نے محکمہ کی پہلے اپیل خارج کی پھر جب ریویو پٹیشن فائل کی گئی اُسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ تقریباً اٹھارہ سال عدالتوں کے دھکے کھانے کے بعد آخر کار ظہور احمد کو انصاف ملالیکن محکمہ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد سے لیت و لعل شروع کر دی۔ وکیلوں نے کہا کوئی بات نہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ہائی کورٹ چلتے ہیں۔ بچارے ظہور احمد کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا اور پھر اُسی سال (یعنی 2004) میں ہائی کورٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے درخواست دے دی۔ پھر وہی وکیل، وہی، عدالتیں اور روز روز کچہری کے چکر۔ آخر کار 2012 میں ہائی کورٹ نے مدعی کے حق میں فیصلہ دے دیا جس کے نتیجہ میں متعلقہ محکمہ نے مدعی کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق پیسہ دینے کے لیے دفتری کارروائی شروع کر دی۔ مدعی کو اب یقین تھا کہ اب تو کوئی رکاوٹ نہیں رہی، سپریم کورٹ کا اُن کے حق میں فیصلہ آچکا اور اب تو ہائی کورٹ نے فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے حکم بھی صادر کر دیا۔ عمل درآمد کے انتظار میں دو سال اور گزر گئے اور پھر اچانک 2014 میں مدعی کو سیشن کورٹ کا نوٹس ملا اور اس بار متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر نے کیس دائر کیا کہ مدعی زمین سے ملکیت کے بارے میں ثبوت دے کہ وہی زمین کا مالک ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ کئی برسوںکے دوران یہی محکمہ مال مدعی کی ملکیت کے حق میں گواہی دیتا رہا لیکن اب پھر کسی کو خیال آیا کیوں نہ یہ قانونی گُر چلا جائے اس سے مقدمہ کم از کم بیس تیس سال کے لیے اور لٹک جائے گا۔ 2014 کی اس قانونی چال کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے مدعی نے ایک بار پھر 2014 میںہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا۔ تین سال گزر گئے اور معاملہ ابھی ہائیکورٹ کے سامنے ہی ہے۔ ان تین برسوں میں اب تک ہائی کورٹ نے اس معاملہ پر مقدمہ کو ایک ہی بار سنا۔ اس مقدمہ کا ایک اہم پہلو ہے کہ ظہور احمد اس مقدمہ کو عدالتوں میں لڑتے لڑتے 2013 میں فوت ہو چکے جس کے بعد اُن کا 45 سالہ بیٹا اس مقدمہ کی پیروی کر رہا ہے۔ ایک نسل گزر گئی اور نہیں معلوم کہ دوسری نسل کے نصیب میں بھی انصاف دیکھنا ممکن ہو گا بھی یا نہیں۔ ہمارے ایک اور جاننے والے عبدالقیوم صاحب گزشتہ 15-20 سال سے سی ڈی اے کے ساتھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ بازی میں مشغول ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُ ن سے سی ڈی اے نے زمین ایکوائر کی جس پر وہ ایگرو پلاٹ لینے کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کے گزشتہ دو دہائیوں سے چکر لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کے اُن کے حق میں سب سے پہلے وفاقی محتسب نے فیصلہ دیا پھر بار بار ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں انہوں نے محکمہ کے ساتھ مقدمہ لڑا اور جیتا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے کل سات مقدمات کا اُن کے حق میں فیصلہ ہو چکا لیکن اس کے باوجود وہ پھر عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ عمل درآمد کے لیے سی ڈی اے کو کہہ چکی لیکن عمل درآمد ہو نہیں رہا۔ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم ہاوس کا ایک ڈرائیور میرےگھر ملنے آیا۔ وہ بچارا روتے روتے مجھے بتا رہا تھا وہ چار بیٹیوں کا باپ ہے۔ اُس نے اپنی زندگی کی کمائی سے کوئی دس بارہ سال پہلے ایک پلاٹ خریدا اور سی ڈی اے میں متعلقہ پلاٹ کے مالک نے اپنے حق میں بیان بھی دلوا دیا۔ لیکن بعد میں اُسے عدالت سے نوٹس آ گیا کہ اُس پلاٹ کو کسی اور کو بھی بیچا گیا۔ اُس ڈرائیور کے مطابق اس مقدمہ میں اُس کا مدمقابل کوئی ایک وکیل ہے جس کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ پلاٹ میرے ایک مرحوم قریبی عزیز سے لیا تھا جس کی وجہ سے اُس ڈرائیور نے مجھ سے مدد کی درخواست کی۔ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کو درخواست دے دے کر تھک چکا کہ اس کے مدمقابل پارٹی کی درخواست جھوٹی ہے ، حتیٰ کہ دستخط بھی جعلی ہیں لیکن مقدمہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ڈرائیور بچارے نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اپنے عزیز سے درخواست کروں کہ وہ عدالت کو کم از کم یہ بتا دے کہ اس کیس سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ بات جب میں نے اپنے عزیز کو کہی تو اُس نے کہا ڈرائیور کا کیس جائز لگتا ہے لیکن وہ بلاوجہ عدالت کے چکروں میں پھنس کر اپنی زندگی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ نجانے کتنا عرصہ غریب ڈرائیور عدالتوں کے چکر لگاتا رہے گا۔ افسوس کہ اتنے سادہ سے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی ہماری عدالتوں کو برسوں اوردہائیوں لگ جاتے ہیں۔ ان چند مثالوں کو یہاں بیان کرنے کا مقصد پاکستان کے عدالتی نظام کی اُس ناکامی کو اجاگرکرنا ہے جس کے باعث عدالتوںکے ذریعے انصاف کا حصول ممکن نہیں رہا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ لوگ عدالت کا نام سن کر ہی ڈر جاتے ہیںکیوں کہ عام تاثر یہ ہے کہ عدالتیں نہ صرف انصاف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں بلکہ یہ عدالتی نظام مظلوم کی بجائے ظالم کے ظلم کے تحفظ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ کسی بھی مقدمہ میںاگر کوئی عدالت میں چلا گیا تواس کا مطلب یہ
ہے کہ معاملہ لٹک گیا۔ حال ہی میں پیمرا کے چئیرمین ابصار عالم نے کہا کہ کس طرح اس ادارہ کی رٹ کو ٹی وی چینلز نے سینکڑوں عدالتی اسٹے آرڈرز کے ذریعے بے بس کر دیا۔ نوے کے عشرے میں اسلام آباد میں ہمارے ایک ہمسایہ نے نیا گھر بنایا اور کرائے پر دیا۔ کرائے دار نے گھر میں گھستے ہی اعلان کر دیا کہ وہ کرایہ دار نہیں بلکہ گھر کا مالک ہے۔ اس پر اصل مالک سٹ پٹا اٹھا اور نقلی مالک مکان کو کہنے لگا کہ تم کس طرح یہ بات کر سکتے ہو جس پر اصل مالک کو جواب ملا کہ جو بات ثابت کرنی ہے عدالت میں کرو۔ اور یوں معاملہ کچھ سال عدالت میں چلتا رہا اور جب نقلی مالک مکان کا وہاں جی بھر گیا تو بغیر کرایہ دیے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ 2011 میںسی ڈی اے نے اسلام آباد میں پارک اینکلیو نام کا ایک سیکٹر کھولا اور اس کے پلاٹ مارکیٹ ریٹ سے بیچے۔ وعدہ کیا گیاکہ 2013 میں خریداروںکو پلاٹوں کا قبضہ مل جائے گا لیکن آج 2017 میں بھی پچاس ساٹھ الاٹیوں کو ادائیگیوں کے باوجود پلاٹ مہیا نہیں کیے گے۔ ان متاثرین کی جب سی ڈی اے سے بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کیا کریں عدالتوں نے اسٹے آرڈر دیے ہوئے ہیں کچھ نہیں کر سکتے۔پاکستان میں زمینوں، کاروباری لین دین، جائیداد وغیرہ کے معاملات جب عدالتوں میں چلے جاتے ہیں تو پھر معاملہ برسوں ، دہائیوں کے لیے لٹک جاتا ہے۔ اس صورتحال میں دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ مظلوم عدالت چلے جائیں کیوںکہ قانونی جنگ لمبی چلے گی اور اب تو انصاف کے حصول کے لیے وکیل پیسہ بھی بہت مانگتے ہیں۔ یہ صورتحال غریب، متوسط اور مظلوم طبقہ کے لیے انتہائی تشویشناک ہے اور اسی لیے عمومی طور پر لوگ عدالت جانے سے ڈرتے ہیں۔ چند روز قبل محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے انصاف کی جلد فراہمی اور موجودہ عدالتی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اللہ کرے وہ اس میں کامیاب ہوں ورنہ پاکستان میں عدالتوں اور انصاف کا حال بہت ہی بُرا ہے۔

.
تازہ ترین