• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی حکومت اور فوج کے مابین نیوز لیکس کا معاملہ طے ہو جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے ، جو نہ صرف پاکستان بلکہ تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام کیلئے حیرت کا باعث ہے ۔ یہ معاملہ جس طرح طے ہوا ، اس کے بارے میں لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ بعض حلقے اسے ’’ سویلین بالا دستی ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ سویلین بالادستی کی یہ اصطلاح یہ معاملہ طے ہونے سے ایک دن پہلے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے دی گئی تھی ۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کا مشاورتی اجلاس بلایا تھا اور اس میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ سویلین بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔اس اجلاس کے دوسرے دن نہ صرف ڈان لیکس کا معاملہ طے ہو گیا بلکہ فوج کی طرف سے وہ ٹوئٹ پیغام بھی واپس لے لیا گیا ، جس میں پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے نوٹیفکیشن کو مسترد کیا گیا تھا ۔ کیا پاکستان میں واقعی سویلین بالادستی قائم ہو گئی ہے ؟ یہ آج بنیادی سوال ہے ، جس کا جواب تلاش کیا جا رہا ہے ۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے نہ صرف ڈان لیکس پر سول حکومت اور فوج کے مابین پیداہونے والے تناؤ کا جائزہ لینا ہو گا بلکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے پورے سیاسی کیریئر پر بھی نظر ڈالنا ہو گی اورکوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے بہت سے حقائق کو سمجھنا ہو گا ۔ 6اکتوبر 2016ء کو انگریزی روزنامہ میں وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم اجلاس کی خبر شائع ہوئی ، جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قومی سلامتی کے اداروں کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ۔ اس خبر سے جو تاثر پیدا ہو رہا تھا ، وہ پاکستان کے مخالف بیرونی حلقوں کے مخصوص موقف کی تائید کرتا تھا ۔ اس پر فوج کا سخت ردعمل سامنے آیا ۔ اس سخت ردعمل کے نتیجےمیں وزیر اعظم نے اپنے معتمد ساتھی پرویز رشید کو وزیر اطلاعات کے عہدے سے برطرف کر دیا اور انکوائری کمیٹی بھی قائم کر دی ۔ اس کے باوجود بھی اس ردعمل میں کمی نہیں آئی ۔ جب انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیلئے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری کیا تو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ کرکے اس نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا ۔ یہ ٹوئٹ اس امر کی دلیل تھا کہ صرف جنرل راحیل شریف کے دور میں ہی نہیں بلکہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے دور میں بھی ڈان لیکس پر فوج سخت ناراض ہے ۔ پھر اچانک صورت حال نے پلٹا کھایا اور وزیر اعظم سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد معاملات طے ہو گئے اور فوج نے مذکورہ ٹوئٹ پیغام بھی واپس لے لیا ۔ اس ملاقات کے بعد صرف یہ ہوا تھا کہ وفاقی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ، جو اپوزیشن کے سیاست دانوں کے نزدیک پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے نوٹیفکیشن سے مختلف نہیں تھا۔
ڈرامائی انداز میں یہ معاملہ طے ہونے سے ایک دن پہلے وزیر اعظم نے یہ باور کر ادیا تھا کہ سویلین بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا ۔ معاملہ طے ہونے کے دوسرے دن سینیٹ کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سویلین بالادستی کا سوال اٹھا دیا اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق اور قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن سے کہا کہ وہ اس سوال پر ان کی رہنمائی کریں کہ حکومت اور عسکری قوت کیسے ہم پلہ ہو سکتی ہیں ۔ آئین ، قوانین اور ضابطہ ہائے کار کے تحت مسلح افواج سول حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں ۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے بین السطور میں یہ بات واضح کی کہ موجودہ حکمران سویلین بالادستی قائم کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ سینیٹر اعتزاز احسن کے اس بیان سے جو تاثر ملتا ہے ، وہ اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈان لیکس کا معاملہ ڈرامائی طور پر حل ہوا اور فوج نے اپنا ٹوئٹ پیغام واپس لے لیا ۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے ۔
کچھ حلقے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے سیاسی کیریئر کے تناظر میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کے فوج کیساتھ تعلقات میں بہت اتار چڑھاؤ رہا ہے اور اس اتار چڑھاؤ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے تمام اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے یا دبانے کیلئے وہ طریقے استعمال کئے ہیں ، جو کوئی دوسرا سیاست دان استعمال کرنے کی جرات تو کیا ، سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس کے باوجود بہت مراحل ایسے آئے ، جب یہ محسوس ہوا کہ نواز شریف اور فوج کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور کسی بھی وقت کوئی درعمل سامنے آسکتا ہے لیکن لوگوں کے اندازے کبھی درست ثابت نہ ہوئے ۔ جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک دورے کے دوران برطرف کرنے ،ان کی جگہ انجینیرنگ کور کے ایک جنرل کو آرمی چیف بنانے اور پرویز مشرف کے طیارے کو لینڈنگ سے روکنے کے اقدامات کے باوجود بھی نواز شریف آج تیسری مرتبہ وزیر اعظم ہیں ۔
ڈان لیکس کا معاملہ طے ہونے پر عمران خان نے کہا کہ کمزور کیلئے ایک قانون ہے اور طاقتور کیلئے دوسرا قانون ہے ۔ ان دلائل کی بنیاد پر مذکورہ حلقوں کا موقف یہ ہے کہ اگر فوج نے ڈان لیکس کا معاملہ وزیر میاں محمد نواز شریف سے طے کر لیا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے اور اسے ملک میں سویلین بالادستی کے قیام سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔
ایک دوسرا حلقہ اس بات سے اختلاف کرتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں فوجی مداخلت کے حالات نہیں رہے ہیں ۔ آئینی ترامیم نے بھی مداخلت کے راستوں کو بہت حد تک بلاک کیا ہے ۔ علاقائی اور بین الاقوامی حالات بھی مداخلت کیلئے سازگار نہیں ہیں ۔ ان حالات کی وجہ سے یہ معاملہ طے پایاہے جبکہ ایک تیسرا حلقہ ایسا بھی ہے ، جو مذکورہ بالا دونوں حلقوں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے پہلے کی طرح منظور نظر ہوتے تو ان کے سامنے پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر کھڑی نہ ہوتی ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور بعد ازاں آصف علی زرداری کو جلا وطن کرکے تحریک انصاف کیلئے میدان خالی کیا ۔
کچھ اسی طرح کا کام طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہوں نے بھی کیا ۔ اس حلقے کے خیال میں نواز شریف اب اسٹیبلشمنٹ کے ’’ منظور نظر ‘‘ نہیں رہے ۔ لہٰذا ڈان لیکس کا معاملہ طے ہونا، ان کیلئے رعایت تصور نہ کیا جائے ۔ اس حلقے کی طرف سے یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات ایسے نہیں ہیں کہ پاکستان یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں فوجی مداخلت کے خلاف مزاحمت ہو ۔
مذکورہ بالا تینوں حلقوں کی آراء میں کسی حد تک وزن ہے ۔ کسی ایک رائے پر اصل سوال کا حتمی جواب تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک فیکٹر ایسا ہے ، جسے سب نظر انداز کر رہے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ جمہوریت کیلئے برسرپیکار تیسری دنیا کے ملکوں میں سیاست دان خود اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ وہ اب اپنے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف حلقوںکو کنٹرول کر سکیں ۔ سیاست دانوں کی اس طاقت کا سرچشمہ نہ تو عوام ہیں اور نہ ہی مضبوط سیاسی جماعتیں بلکہ ان کی طاقت کا راز ان کی دولت اور ملکی و عالمی اسٹیبلشمنٹ میں ان کے مضبوط روابط ہیں ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں ایسی سیاسی قیادت جنم لیتی رہی ہے اور اب بھی لے رہی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں سیاست دانوں کی دولت اور مضبوط عالمی روابط سے قائم ہونے والا توازن نہ تو سویلین بالادستی کی مستقل بنیاد بن سکتا ہے اور نہ ہی یہ توازن ہمیشہ برقرار رہ سکتا ہے ۔ یہ وقتی ہے ۔
حقیقی سویلین بالادستی کیلئے مضبوط سیاسی جماعتوں اور ان سیاسی جماعتوں کا عوام سے مضبوط رشتہ بہت ضروری ہے ، جو پاکستان سمیت اکثر ملکوں میں نہیں ہے ۔ اس فیکٹر کو جدید تاریخ اور سیاسی فلسفہ کے تناظر میں کسی اور نشست میں تفصیل کیساتھ بیان کیا جائیگا لیکن میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ، آصف علی زرداری ، عمران خان اور دیگر طاقتور سیاست دان جس طرح معاملات طے کر رہے ہیں ، اسے سویلین بالادستی نہیں کہا جا سکتا ۔

.
تازہ ترین