• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبر لیکس کی وجہ سے جو ملک میں خدشات جنم لے رہے تھے وہ بالآخر دم توڑ گئے، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے درمیان ملاقات 10 مئی 2017ء کو ہوئی، اس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا ٹوئٹ جس نے بھونچال پیدا کردیا تھا واپس لے لیا اور وزیراعظم کی قیادت کو تسلیم کرلیا گیا۔ یوں یہ معاملہ حل ہوگیا، سارا ملک مضطرب تھا کہ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔ فوجی قیادت پیچھے ہٹی اور سیاسی قیادت کی قانونی برتری کو تسلیم کرلیا۔ مجھ سے ایک محفل میں یہ سوال پوچھا گیا کہ صورتِ حال کس طرح سنبھل سکتی ہے، جواب یہی تھا کہ سول اور ملٹری قیادت ایک صفحہ پر ہوں کیونکہ دشمن کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے، اس وقت تو یہ نظر آرہا تھا کہ یہ معاملہ بگڑا تو تصادم ہوجائے گا مگر یہ ملک و قوم کے مفاد میں قطعاً نہیں تھا۔ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرا جارہا ہے، بھارت دبائو بڑھا رہا ہے تو افغان حکومت بھی بھارت کے اشارے پر اُس کے نقش قدم پر چل پڑی ہے، جس کی وجہ سے تادم تحریر چمن سرحد پر باب دوستی بند ہے، تیسری ایک اور پڑوسی نے دھمکی دے ڈالی ہے جو اچھنبے کی بات تھی وہ یہ کہ اُن کے ہمارے درمیان تعلقات میں اتار چڑھائو آیا مگر کبھی وہ زبان استعمال نہیں کی گئی جو اُن کے فوجی سربراہ سے منسوب کی گئی اور اُس کی تردید بھی نہیں آئی اور یہ اُس کے بعد ہوا جب ایرانی حکام پاکستان آکر معاملات طے کر گئے تھے۔ جواباً پاکستان نے سرحد پر مزید ایف سی تعینات کردی تھی، ایسا بیان اُن کے اور ہمارے تعلقات جس میں ایک دوسرے کی جنگوں میں مدد اور ایک دوسرے کے ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا اور پاکستان کے مشکل وقت میں ایسا بیان اُن کے کردار سے لگّا نہیں کھاتا۔ اس صورت کے پیش نظر اگر سول اور ملٹری قیادت میں اختلافات کو ختم کرلیا تو یہ بالغ نظری کی علامت ہے، اس سے یہ ضرور پتہ چلا کہ معروضی حالات میں سول قیادت پانامہ لیکس کے باوجود کافی مضبوط پوزیشن میں ہے، اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خراب دورِ حکومت کے بعد ملٹری حکومت پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور کسی حد تک عوام کو قبول نہیں۔ دوسرے ملک کے حالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ ملٹری اُن کو سنبھال نہیں سکتی، تیسرے فضائیہ اور بحریہ کا دائرئہ کار اور اہمیت اتنی بڑھ گئی ہے جو کسی مہم جُو کو مہم جُوئی سے روکتی ہے۔
پاکستان کے خلاف کئی ممالک کھل کر سامنے آگئے ہیں، مگر کئی دشمن چلمن میں چھپے بیٹھے ہیں اور کسی وقت بھی کھل کر سامنے آسکتے ہیں، اُن کو صرف پاکستان میں سیاسی استحکام کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے، جہاں تک غیرملکی حملہ اور خصوصاً بھارت کی طرف سے جو دھمکیاں دی جارہی ہیں اُن کو کرارا جواب دے سکتے ہیں، وہ ایٹمی طاقت ہے سو ہم بھی ہیں، ہماری ایٹمی صلاحیت اور اُس کی اہمیت تسلیم شدہ، میزائل کی مار اور نشانہ کی درستی ساری دُنیا نے مانی ہے، ہم اُن کے ایٹمی اثاثوں تک اِس سرعت کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں کہ اُن کا کوئی دفاعی نظام نہیں روک سکے گا۔ اُس نے دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت 2016ء میں حاصل کرلی تو ہم نے جنوری 2017ء میں اس صلاحیت پر دسترس حاصل کی۔ یہ ایک خوفناک صلاحیت ہے جس کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کے بعد نہ یورپ میں کوئی بڑی جنگ ہوئی نہ ایشیا اور نہ ہی دُنیا میں اس لئے کہ یہ استعداد نہ صرف امریکہ بلکہ روس کے پاس بھی ہے، جنگ کی صورت میں کرئہ ارض پر کوئی ذی روح باقی نہیں بچے گا ، اب یہ ہورہا ہے کہ خلا سے جنگ کی باتیں کی جارہی ہیں، یا آلات کو منجمد کر دیا جائے کہ وہ چل ہی نہ سکیں اور اگر چلیں تو ہدف پر نہ لگیں، حال ہی میں امریکہ نے شام کے فضائی اڈے سے 57 ٹوموہاک کروز میزائل داغے جن میں صرف 23 نشانے پر لگے، کہتے ہیں کہ شام کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا اور روس نے شام کا نقصان پورا کردیا۔ اس طرح پاکستان اور بھارت میں آلات کو منجمد کرنے اور دفاعی نظام لگانے کی دوڑ چل پڑی، بھارت نے دفاعی میزائل لگا دیا کہ کسی غیر دوست ملک کا میزائل اُس کی حدود میں داخل نہ ہوسکے اور اُس کے ساتھ ساتھ بھارت اور ایران روس سے S-400 دفاعی نظام خرید رہے ہیں تو چین سے پاکستان نے بھی دفاعی نظام خرید لیا اور اس وقت وہ روبہ عمل ہے۔ اس طرح دفاعی طور پر ہم مضبوط ہیں اور بھارت کا یہ نظریہ کہ وہ چین اور پاکستان سے ایک وقت میں نمٹ سکتا ہے فیل ہوگیا ہے۔ بیرونی طور پر ہمیں تنائو میں تو رکھا جاسکتا ہے مگر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اندرونی طور سے کئی اور سازشیں کی جارہی ہیں جیسے مسلک اور لسانی بنیاد پر یا مذہبی جذبات کو ابھار کر پاکستان میں بے چینی پھیلانے کی کوشش۔ ویسے حالات کافی حد تک قابو میں ہیں مگر کسی وقت کسی بڑے واقعہ کو مصنوعی طور پر پیدا کرکے بے چینی کو ہوا دینے کی کوشش کی جاسکتی ہے، اس سے ہوشیار رہا جائے۔ جیسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر حملہ یا مثال کے طور پر کسی سفیر کا قتل جیسے روسی سفیر کا قتل ترکی میں کیا گیا، اگرچہ یہ انتہائی غیراسلامی فعل ہے اور اسلام نے اُس کو سختی سے منع کیا ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کی سینئر محققین کی کونسل نے اُس کو انتہائی قبیح فعل قرار دیا اور داعش و القاعدہ کے اس فعل کو اسلامی دائرہ سے باہر کا درجہ دے کر اُن کو غیرملکی ایجنٹ یا غیرمسلم ہونے یا اُن کا آلہ کار ہونے کا پیغام دیا۔ ایسا کرکے انہوں نے یہ اچھا کام کیا ہے، پاکستان میں بھی ہماری علما کونسل اس قسم کے بیانات کے ذریعے کسی ایسے فعل کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے لئے دو اچھی خبریں یہ بھی ہیں کہ پاکستان اپنی مضبوطی اور اپنے استحکام کا اظہار کئی طریقوں سے کررہا ہے، ایک تو پاک سول و ملٹری قیادت کے اتفاق رائے کا، دوسرے پاکستان کی ہر قسم کی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت تیسرے پاکستان کے وزیراعظم کا دورئہ چین پر جانا اُن کے پُراعتماد ہونے کی علامت ہے تو پاکستان کی مضبوطی کی بھی، اور چوتھے انرجی کے معاملے میں 2020ء تک خودکفیل ہونا اور پانچویں حاصل بزنجو کا یہ کہنا کہ گوادر پورٹ دسمبر 2018ء تک مکمل طور پر کام شروع کردے گی۔ یعنی اس وقت تک گوادر کی بندرگاہ پر سو کے قریب جہازوں کو سامان اتارنے یا لادنے کی سہولت دستیاب ہوجائے گی۔ یہ بڑی خبر اور اس لحاظ سے بہت بڑی کے دشمن کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود پاکستان اس مقام پر پہنچ گیا کہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے کھیل کو تبدیل کردیا۔ ہم نے گریٹ گیم کو ختم کردیا۔ روس ہمارے ساتھ جڑ گیا ہے، امریکہ بھی اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی کرلے، گریٹ گیم کے خالق برطانیہ نے بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ایران کو کھلی دعوت دی ہوئی ہے اور گوادر اور چابہار بندرگاہوں کو بہنوں کا درجہ دے دیا ہے تاہم پاکستان اگر سیاسی طور پر مستحکم رہتا ہے تو وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا یا اب دیکھ رہے ہیں اور اس ساتھ ساتھ خواب کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔

.
تازہ ترین