• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض مشاہدات اتنے متاثر کن ہوتے ہیں کہ آنکھوں سے اُتر کر دل میں جاگزیں ہو جاتے ہیں اور زندگی کاحصہ بن جاتے ہیں۔ یہ دسمبر کی ایک یخ بستہ انتہائی سرد رات تھی۔ آسمان سے برف روئی کے گالوں کی مانند برس رہی تھی، سرد تیزہوا جسم کو چیرتے ہوئے گزر رہی تھی اور فٹ پاتھ پہ پڑی برف جوتوںسے گزر کر پائوںکو ٹھٹھرا رہی تھی۔رات کے کوئی آٹھ نو ہی بجے تھے لیکن یوں لگتا تھاجیسے سارا شہر سوگیا ہے اورسردی سے شکست کھا کر گرم گرم گھروں میں مقفل ہو گیا ہے۔یوں بھی یورپ میں لوگ اتوار کی رات جلد سوجاتے ہیں کہ صبح جاب پر جاناہوتا ہے۔ میں ویک اینڈ لندن میں گزار کر بس سے آکسفورڈ پہنچا تھااور اس کے اڈے سے اپنا ہلکاسا بیگ اٹھائے ہوسٹل کی جانب رواں دواں تھا۔فٹ پاتھ پر چلتے چلتے جب میں دریائے ٹیمز کےپل سے گزر رہا تھا تو حسب معمول میری نگاہیں دریا کے کنارےپر اُگے ہوئے لمبی گردنوں والے سفید پھولوں پر پڑیں جو بجلی کی روشنی اور آسمان سے گرتی برف میں اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی ورڈز ورتھ کی نظمیں یاد آگئیں۔ ابھی چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ ایک گھر کی تنگ سی سیڑھیوں پر ایک بزرگ نحیف خاتون پر نظر پڑی جواپنے دونوں بازوئوں میں پھول اور لفافے تھامے کھڑی تھی۔ شدید سرد رات، خوفناک تنہائی اور خاموشی، آسمان سے برستی برف اور جسم کو چیرتی یخ ہوامیں اُسے کھڑا دیکھ کر جیسے میرے پائوں کو کسی شے نے جکڑ لیا۔ میں نے ذرا آگے بڑھ کر اسے سلام کیااور پوچھا ’’مام! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘ سفید بالوں کو گرم ٹوپی میں چھپائے بزرگ خاتون بولی۔ ’’نہیں۔ آپ کابہت شکریہ۔ یہ میرے بیٹے کا گھرہے۔ آج شام اس کی سالگرہ ہے اور وہ اندر اپنے دوستوں کے ساتھ میوزک پرسالگرہ منا رہاہے۔ میں اسے پھول اور تحائف دینے آئی ہوں لیکن اس خیال سےگھنٹی نہیںبجائی کہ وہ ڈسٹرب ہوگا۔ ابھی میوزک تھمےگا تو گھنٹی بجائوںگی۔‘‘اتنے میں میوزک کی آواز تھم گئی۔ شاید وقفہ ضروری تھا۔ اس نے آہستہ سے بیل بجائی۔ ایک نوجوان نے دروازہ کھولا اور ’’مام‘‘ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔میں اطمینان قلب کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور سب کچھ بھول کرسوچنے لگا کہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب ، کالے ہوں یاگورے ماں ہر جگہ ماں ہی ہوتی ہے اور اللہ پاک نے یہ ایسی ہستی بنائی ہے جس کا ایثار، محبت خلوص ، جذبہ وغیرہ جغرافیے کے ساتھ نہیں بدلتا بلکہ بنی نوع انسان سےلےکر حیوانوں تک ایک ہی جیسا رہتا ہے۔
کل دن بھر مجھے موبائل پر پیغامات آتے رہے۔ سارے بڑے اسٹوروں اورتجارتی اداروں نے ’’یوم ماں‘‘ کے حوالے سے سیل لگارکھی تھی۔ مغربی ممالک میں مخصوص ایام کو ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑھ چڑھ کر مناتی ہیں۔ کمرشل معاشروں نے تقدس میں کمرشل ازم شامل کردی ہے۔ یوم ماںہو یایوم باپ، ان کے لئے دولت کمانے کے مواقع ہوتے ہیں اور ایسے مخصوص ایام کے حوالے سے نئی نئی چیزیں رنگ برنگے تحائف بیچ کر وہ بے پناہ کمائی کرتے ہیں جبکہ مسلمان کلچر میں والدین کے لئے دن مخصوص نہیں۔کسی بزرگ سے ان کے عقیدت مند نے پوچھا ’’خدا کا نور کیسے دیکھاجائے؟‘‘ انہوں فرمایا ’’فجر کی نماز ادا کرکے اور سلام پھیر کر والدہ کاچہرہ دیکھوتو تمہیں اللہ کا نور نظرآئے گا۔‘‘یہ نور کسی دن یا کسی مخصوص واقعے کامرہون منت نہیں۔ شاید یہ بات ہمیشہ سچ نہ ہو لیکن میرا خیال ہے کہ ماں کےچہرے کا نور اس تخلیقی عمل کا حصہ ہےجس سے ماں بچے کو جنم دیتے ہوئے گزرتی ہے۔ تخلیق کامالک تو مالک حقیقی ہے___وہی اول، وہی آخر___
یوم ماں کے حوالےسے ڈسکائونٹ، سیل اور رعایتوں کے پیغامات پڑھتے ہوئے مجھے وہ کہانی یاد آگئی کہ ایک ماں کی صرف ایک آنکھ تھی اور وہ دیکھنے میں بدصورت لگتی تھی۔ اس کا بیٹا بدصورتی کی وجہ سے ماں کے چہر ےکی طرف نہیں دیکھتا تھا اور نہ اس محبت کا گرمجوش اظہار کرتا تھا جس کا بچے بچپن میں اظہارکرتے ہیں۔ ماں کے انتقال کے بعداس نے ماںکی تحریر پڑھی جس سے اسے پتا چلا کہ اس کی بچپن میں ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی اور اسے دو آنکھوں کی خوبصورتی عطاکرنے کے لئے ماں نے اپنی ایک آنکھ اسے دے دی تھی۔ یہ ’’ماں کے ایثار‘‘ کی ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔ ظاہر ہے کہ بچپن میں بچے کی کل کائنات ہی ماں ہوتی ہے۔ وہ ماں کی گود میں بیٹھا یوں محفوظ اور آسودہ محسوس کرتاہے جیسے کوئی بادشاہ اپنے نہایت مضبوط اور بلند وبالا قلعے میں پناہ لے کر محسوس کرتا ہے۔ لیکن جوں جوں وہ جوان ہوتا ہے، اپنے لئے نیا جہاں تخلیق کرتاہے تو ماں کی گود سے دور ہوتا چلا جاتاہے۔ پھر اسے دوستوں کی محفل، زندگی کے دھندے، بیوی بچوں کی مصروفیات اور نوکری یا بزنس کے تقاضے اس قدر مصروف کردیتے ہیںکہ وہ اپنی شخصیت کے مرکز___ماں___ سے دور ہوتاچلا جاتا ہے۔ غور کیجئے کہ جوں جوں انسان اس مرکز سے دور ہوتا ہے وہ اپنی شخصیت کی معصومیت کھوتا چلا جاتا ہے اور حالات کے رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ ماں کے لئے بچہ وہی رہتا ہے لیکن بچے کےلئے جوان ہو کر ماں وہ نہیں رہتی۔ میرے ہیڈماسٹر چوہدری عبدالمالک کوئی 65کے پیٹے میں تھے جب وہ کلاس میں بتایا کرتے تھے کہ میں آبائی گائوں سے بذریعہ ریل رخصت ہونے سےقبل اپنی ماں سے ملنے گیا تو انہوں نے تاکیدکی کہ عبدالمالک ٹرین کے دروازے میں کھڑے نہ ہونا۔ پیسے سامنے والی جیب کی بجائے بغل کے نیچے والی جیب میں رکھا کرو وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت چوہدری صاحب نانا دادا بن چکے تھے لیکن ماں کے لئے وہی کمسن عبدالمالک تھے۔
چندہفتے قبل اخبار میں ایک واقعہ پڑھ کر میں اندر ہی اندر تڑپتا رہا۔ خیبرپختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو ساتھیوں نے تشدد کرکے بے رحمی سے قتل کردیا۔ جب اس کی میت گھر پہنچی تو اس کی ماں صدمے سے تڑپ رہی تھی۔ وہ میت کے پاس بیٹھی مشال خان کی تشدد سےٹوٹی انگلیوں کو دیوانہ وار چومتی جاتی تھی اورروتی جاتی تھی۔ یہ واقعہ میرے دل پر گہرا زخم لگالیا۔ کمرشل ازم نے ’’یوم ماں‘‘ کو کمرشل بنادیاہے ورنہ ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کی محبت، ایثار اور خلوص کی گہرائیوں کو نہ ناپاجاسکتا ہے نہ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ الحمدللہ میری والدہ زندہ ہیں۔ میں بدقسمت ہوں ان کی اتنی خدمت نہ کرسکا جو ان کا حق ہے۔ ہم سب زندگی کے مسائل اور بکھیڑوں میں پھنس کر اس خدمت سے محروم رہتے ہیں اور اس خدمت کا قرض کندھوں پر اٹھائے قبر میں چلے جاتےہیں۔ چند ماہ قبل میری والدہ پر فالج کا حملہ ہوا۔وہ قوت ِگویائی، حافظہ، ٹانگ اور بازو کی طاقت سے محروم ہوگئیں۔الحمدللہ علاج سےکھوئی ہوئی طاقت بحال ہو رہی ہے۔ میںان کے پاس چارپائی پر بیٹھتاہوںتو ان کے چہرے پررونق آجاتی ہے اور وہ دیر تک میرے گھٹنے پر ہاتھ پھیرتی رہتی ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ میرے گھٹنے میں درد ہوتاہے۔ بازو اور ہاتھ کمزور ہیں لیکن میرے گھٹنے کو سہلاتے ہوئے تھکتے نہیں۔ کیا دنیا میں کوئی اورہستی میرے درد کو یوں محسوس کرتی ہے؟ سچ ہے ماں، ماں ہی ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین