• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو مبارک ہو کہ 65سالہ ریکارڈ توڑ کر مصباح الحق نیازی نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ مصباح کی قیادت میں کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو اُس کی سرزمین پر شکست دے کر قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ میچ کے اختتام پر دونوں ریٹائر ہونے والے کھلاڑیوں مصباح الحق اور یونس خان نے جی بھر کر قومی پرچم لہرایا۔ مصباح الحق کی داستان کرکٹ بھی عجیب ہے۔ یہ میانوالی کے عام سے کرکٹ کلب میں کھیلتا تھا، مصباح اپنے کرکٹ کے مستقبل سے مایوس تھا، بے روزگار تھا، ایک روز قومی اسمبلی کے موجودہ رکن امجد علی خان کے پاس ان کے پٹرول پمپ پر گیا، مصباح کی گفتگو سن کر امجد علی خان نے اپنے والد ڈاکٹر شیر افگن نیازی کو فون کیا۔ ڈاکٹر شیر افگن نیازی مرحوم اس وقت وفاقی وزیر تھے، انہوں نے اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ ڈاکٹر نسیم اشرف سے بات کی، یوں مصباح کی بات بن گئی۔ قصہ مختصر قوم مصباح الحق کو ایک یادگار کپتان کے طور پر یاد کرے گی۔ میانوالی کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے پاکستانی کرکٹ کو دو کامیاب کپتان دیئے۔ عمران خان کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کا تعلق میانوالی کے نیازیوں سے ہے۔
جو کچھ اتوار کے روز کراچی میں ہوا، وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پی ایس پی کا مطالبہ بنیادی حقوق سے متعلق تھا، بنیادی حقوق کا حصول ہر شہری کا حق ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتیں بعض اوقات آمریت سے بھی آگے نکل جاتی ہیں۔ کراچی میں آنسو گیس کے ساتھ لاٹھی چارج ہوا، لاہور ماڈل ٹائون میں بے گناہ انسانوں کو موت کی وادی میں اتار دیا گیا تھا۔ کیا یہ سب کچھ ایک جمہوری معاشرے میں ہوتا ہے۔ کبھی راولپنڈی کے اسپتال میں بچے کو چوہا کاٹ جاتا ہے تو کبھی لاہور کے اسپتال میں ٹھنڈے فرش پر ایک بوڑھی عورت مر جاتی ہے۔ ہفتے کے روز سکھر میں عجیب تماشا ہوا، شکار پور سے سکھر آنے والی ایک عورت نے رکشے میں بچی کو جنم دیا پھر وہ اپنی بچی کو اٹھائے سکھر کے اسپتالوں میں مارے مارے پھرتی ہی، اُس کی بچی کو آکسیجن تو نہ مل سکی البتہ موت مل گئی۔ آپ اسے ’’جمہوریت کا حسن‘‘ کہتے ہیں تو کہتے رہیں، میرے نزدیک تو یہ ظلم ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، رہائش اور خوراک کے علاوہ امن و امان کی ذمہ داری بھی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ پتا نہیں جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتیں ان میں سے کونسی چیز لوگوں کو دے رہی ہیں۔ دراصل پاکستانی جمہوریت پانچ ہزار بندوں کا ایک کلب ہے، اس کلب میں کوئی عام آدمی داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کلب کے لوگ اپنی مراعات میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ قوم کے ٹیکسوں سے چلنے والا یہ کلب صرف دولت مندوں کے لئے ہے۔ پاکستانی سیاست میں جدوجہد اور نظریات کی جگہ دولت لے چکی ہے۔ اس کا اندازہ آپ حالیہ ’’جمہوری دور‘‘ میں بخوبی کر سکتے ہیں۔ پیر صابر شاہ کی جگہ مسلم لیگ ن نے امیر مقام کو صوبائی صدر بنا دیا ہے۔ امیر مقام کے ہر مرتبہ مقام پانے کے پس پردہ کئی چیزوں کا دخل ہے۔ دولت تو صرف ایک حصے کا نام ہے۔ باقی کچھ اور بھی کرشمہ سازیاں ہیں۔ انجینئر امیر مقام 2002ء میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے تھے۔ اسمبلی پہنچ کر انہیں احساس ہوا کہ جماعت میں کیا رکھا ہے، انہوں نے جماعت اسلامی سے ہجرت کی اور پرویز مشرف کے پاس جا کر وزیر مملکت بن گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے مزید تاکید کی تو چوہدری برادران نے خیبر پختونخوا میں امیر مقام کی مداخلت کو بڑھا دیا۔ امیر مقام نے 2008ء کا الیکشن مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑا، جب ق لیگ نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا تو وہ صنعتوں کے وفاقی وزیر بنے پھر 2013ء کے الیکشن سے پہلے جمپ لگا کر ن لیگ میں چلے گئے۔ الیکشن ہارنے کے بعد انہیں وزیراعظم کا مشیر بنا دیا گیا اور اب انہیں ن لیگ خیبر پختونخوا کا صدر بنا دیا گیا۔ سیکرٹری جنرل ایک پرانے مسلم لیگی مرتضیٰ جاوید عباسی کو بنایا گیا ہے۔ مرتضیٰ جاوید عباسی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی ہیں۔
پیر صابر شاہ ہمیشہ صبر کے ساتھ سیاست کرتے رہے ہیں۔ پیر صابر شاہ کا مسلم لیگ سے تعلق 32سال پرانا ہے۔ وہ تسلسل سے الیکشن جیتنے والوں میں شامل ہیں۔ پیر صابر شاہ وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ مجھے پیر صابر شاہ کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ بارہ اکتوبر 1999ء کے کچھ ہی دنوں بعد میں حیات آباد پشاور میں پیر صابر شاہ کے گھر پر تھا، ان دنوں نیب کا ادارہ بہت سرگرم تھا، اس کی بڑی دہشت تھی۔ ہم دونوں رات کے کھانے سے فارغ ہوئے تو پتا چلا کہ پولیس نے تین چار گھروں کو گھیر رکھا ہے۔ پیر صابر شاہ نے کوئی چالاکی نہیں کی بلکہ بڑی سادگی سے اپنے بھتیجے قاسم شاہ سے کہنے لگے ’’...میرے بریف کیس میں دو جوڑ ےرکھ دو، ایک عام استعمال کی جوتی، ٹوتھ پیسٹ اور برش، باقی معاملات خدا کے سپرد...‘‘ پانچ سات منٹ میں بریف کیس تیار ہو کے آ گیا مگر اتنے میں یہ بھی پتا چل گیا کہ نیب نے کسی اور کی گرفتاری کے لئے کارروائی کی تھی۔ یہ تو پیر صابر شاہ تھے جو گرفتاری کے لئے بھی تیار ہو گئے تھے۔
لگے ہاتھوں سندھ کے شاہ کی بات بھی ہو جائے۔ غوث علی شاہ خیر پور کے قابل وکیل رہے ہیں، بعد میں کراچی میں اپنا لوہا منوایا۔ 80ء کی دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے۔ سندھ کےوزیر رہے، وزیر اعلیٰ رہے، گورنر رہے، تعلیم اور دفاع کے وفاقی وزیر بھی رہے۔ مسلم لیگ سے انہوں نے خوب ساتھ نبھایا۔ اکتوبر 99ء کے بعد سید غوث علی شاہ کو قید و بند کی اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ غوث علی شاہ پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے بہت دبائو تھا مگر خیرپور کا شاہ ڈٹا رہا۔ یہ الگ بات کہ ان کے قائد جدہ جاتے وقت انہیں بھول گئے۔ اس بھول کے باوجود غوث علی شاہ قائم رہے، قائم علی شاہ کو ہرانے والے کے حوصلے نہ ٹوٹے۔ جب لندن میں میثاقِ جمہوریت طے پا رہا تھا تو ایک دن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، میاں نواز شریف سے کہنے لگیں ’’...آپ کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک ایج حاصل ہے کہ آپ کے پاس غوث علی شاہ جیسا ہیرا موجود ہے...‘‘ یہاں میں ایک وضاحت کر دوں کہ جب غوث علی شاہ وزیراعلیٰ تھے، انہیں محترمہ کے لئے کہا جاتا تھا کہ سختی کرو مگر سندھ کا شاہ ایسا نہیں کرتا تھا۔ 83سالہ غوث علی شاہ آج کل کراچی میں ہیں، ان کی پارٹی کی حکومت ہے مگر وہ حکومت میں نہیں ہیں نہ ہی ان کا حکمرانوں سے کوئی میل جول ہے۔ شاہ صاحب تو ایک طرف ہمارے دوست امداد چانڈیو، نواز شریف سے 25سالہ رفاقت ختم کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر اور مسلم لیگ ن سندھ کے سابق صدر امداد چانڈیو بھی مشکل ترین دور میں نواز شریف کے ساتھ رہے لیکن اب ساتھ نہیں ہیں۔ جدوجہد اور نظریات کی جگہ دولت نے یوں لی ہے کہ پہلے کبھی الیکشن جیتنے کے لئے پیسے دیئے جاتے تھے یا پھر سینیٹ کے انتخاب میں دولت کا چرچا ہوتا تھا۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ سیاسی پارٹی جوائن کروانے کے لئے پارٹی لوگوں کو پیسے دے رہی ہے۔ ایک اہم پارٹی کے رہنما مختلف امیدواروں کے پاس جاتے ہیں، سودا کاری کرتے ہیں پھر پارٹی کے سربراہ وہاں جا کر دعائے خیر کرتے ہیں، پیسہ زمینوں والے کا ہے۔
زمینوں سے مجھے سی ڈی اے یاد آ گیا ہے جہاں وزیر اعظم، وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری اور ایک ڈپٹی میئر ذیشان علی نقوی کی بدنامی کا سامان تیار کیا جا رہا ہے۔ سی ڈی اے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی واضح ہدایات ہیں کہ جی یو پی کے بغیر نئے سیکٹرز میں پلاٹ الاٹ نہ کئے جائیں چونکہ پہلے جی 12میں تصادم ہو چکا ہے مگر سی ڈی اے افسران کو کون سمجھائے۔ اب چند افسران کی ملی بھگت سے سیکٹر سی13، ڈی 13 کے علاوہ ای 13کی فائلوں کا کاروبار شروع ہو رہا ہے جو سی ڈی اے قوانین کے سیکشن 118سی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ افسران کا کچھ نہیں جائے گا، صرف حکومت بدنام ہو گی، جیسا کہ ان افسران نے پہلے کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً سی ڈی اے افسران نے عمران خان کا بنی گالہ والا گھر سی ڈی اے حدود میں ظاہر کیا ہے جو کہ غلط ہے اور یہ غلط بیانی سپریم کورٹ سے کی گئی ہے۔ میں خود بنی گالہ میں رہتا ہوں۔ میرے علم میں ہے کہ بنی گالہ سی ڈی اے کی حدود میں نہیں ہے۔ بنی گالہ کی زمینوں کی ٹرانسفر کے لئے ضلعی انتظامیہ کا رخ کیا جاتا ہے نہ کہ سی ڈی اے کا۔ یقیناً سپریم کورٹ میں حکومت کی سبکی ہو گی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ بعض سی ڈی اے افسران اسے کس گہری کھائی میں لے جا رہے ہیں۔ ان تمام باتوں پر مجھے سعدیہ بشیر کے اشعار یاد آ رہے ہیں کہ
مجھے معلوم تھا مجھ سے محبت روٹھ جائے گی
کہ اس کی سوچتی آنکھوں میں کوئی بھید ٹھہرا تھا
کسی تدبیر سے بھرتا نہیں ہے گھائو وحشت کا
گڑھا تو وقت کا جیسے سمندر سے بھی گہرا تھا

.
تازہ ترین