• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھلا ہو گیا۔ نیوز لیکس کے حوالے سے گورنمنٹ۔ ملٹری تعلقات میں پیدا ہونے والا تنائو ختم ہو گیا، ہر دو جانب کے شکوک و شبہات دور ہو گئے۔ اب میڈیا میں اس کا فالو اپ اور سیاسی ابلاغ میں تند و تیز تنقید جاری ہے۔ ’’سول ملٹری تعلقات‘‘ کا عنوان دیا جا رہا ہے، جبکہ بنتا گورنمنٹ۔ ملٹری ریلیشنز ہے۔ ’’سول‘‘ کی اصطلاح بالعموم پولیٹیکل سائنس میں اس معاشرے یا اس کے سیکشن کو کے لئے استعمال ہوتی ہے جو سیاسی طور پر بیدار ہو ایسا معاشرہ جمہوری جذبے اور انداز سے تشکیل دیئے گئے سوشل کنٹریکٹ (بشکل دستور ریاست) سے اتفاق کرتا ہے اور اس کے تابع ہوتا ہے، تبھی وہ اس معاشرے کی شہریت کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ اس کو جزوی طور پر تسلیم نہ کرنے یا اس کی خلاف ورزی کرنے والا ’’سول‘‘ کے دائرے سے دور سمجھا جاتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ معاشروں کی ’’سول‘‘ حیثیت کے اپنے اپنے درجے ہیں، وہ ریاستیں جو حقیقتاً جمہوری ہیں اور جہاں حکومت اور شہری آئین و قانون کی بلند درجے پر پابندی کرتے ہیں، صحیح معنوں میں سول سوسائٹی کہلانے کے مستحق ہیں۔ ایسے معاشروں کے تمام ہی سیکشنز بشمول فوجی کوئی ایک دوسرے سے بہت الگ نہیں سمجھے جاتے اور ان کی واحدنیت (Oneness)بطور ایک ہیں معاشرے کے شہری ہونے کے بہت مستحکم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ارتقاء پذیر جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی تابعداری کا درجہ کم بھی ہوتا ہے اور بالعموم ڈگمگاتی (Flactuation)صورت میں رہتا ہے، اس کا براہ راست اثر ریاستی اداروں پر پڑتا ہے اور وہ خود بھی دستور اور قواعد و ضوابط سے تجاوز کرتے ہیں۔ انہی باہمی تعلقات کا اتار چڑھائو جاری رہتے رہتے یہ کمزور بھی ہو جاتے ہیں۔ اس صورت کی سب سے بڑی وجہ خود منتخب حکومتوں کا آئین و قانون سے تجاوز کرنا ہوتا ہے تاہم میڈیا آزاد یا نیم آزاد بھی ہو اور عدلیہ کسی حد تک آزاد اور غیر جانبدار ہوں، یا کم از کم حکمرانوں کے رویے کے برعکس اس کی تگ و دو میں ہو اور چاہتی ہو کہ اس کا کردار بمطابق ریاستی دستور ہی ہو تو ایسے میں سیمی سول معاشروں میں ارتقاء کی کیفیت برقرار ہوتی ہے۔
آج پاکستان ایسی ہی صورتحال میں ہے بلکہ یہ اپنی انتہا پر ہے کہ پاکستان حقیقی جمہوری معاشرے (مکمل سول سوسائٹی کی طرف گامزن ہے سردست ہمارے وہی سیکشنز اب سول سوسائٹی کہلانے کے مستحق ہیں جو سیاسی طور پر بیدار اور کسی نہ کسی درجے پر آئین و قانون کی بالادستی اور یکسانیت پر چوکس اور کوشاں ہوں (تبھی تو میڈیا ’’موم بتی گروپ‘‘ کو ہی سول سوسائٹی لکھتا اور کہتا ہے) ایسے میں اگر گورنمنٹ ملٹری تعلقات کا جائزہ ڈان لیکس کے فالو اپ کے طور پر میڈیا یا سیاسی ابلاغ میں شروع ہو گیا ہے تو حکومت کو کوئی دھڑکا نہیں لگنا چاہئے۔ یہ خود اس کے لئے مکمل سول سوسائٹی کے قیام اور فوج کو آئین کے مکمل تابع رکھنے کے لئے مفید ہو گا سو، ایک مرتبہ تو یہ سیر حاصل قومی مکالمہ ہو ہی جانا چاہئے تاکہ سول ملٹری تعلقات یا گورنمنٹ ملٹری تعلقات کی بحث و تمحیص کی فری کوئینسی کم تر ہو، بشرطیکہ اس سے حکومت اور ملٹری سبق سیکھیں واضح رہے یہ فری کوئینسی صحت مند جمہوریتوں میں کم تر ہوتی ہے۔
پاکستان میں اب تک کی صورتحال یہ رہی ہے کہ ہماری 70سالہ تاریخ میں حکومتوں اور افواج میں مسلسل کشمکش رہی جو بے حد مہلک ثابت ہوئی، ملک ٹوٹا اور مسلسل ڈگمگاتا پوٹیشنل کے مطابق ترقی نہ کر سکا۔ ذمہ داری ہر دو پر ہی عائد ہوتی ہے، لیکن آغاز یہی سے ہوا کہ ہم ایک جاندار بیدار سیاسی معاشرے کے طور پہلے تو آئین ہی نہ بنا سکے بنانے تک (1956)فوجی قیادت سول انتظامیہ کو اپنے مقابل لو کپیسٹی سمجھنے لگی اور اس میں ملک کو سنبھالا دینے کا خناس بھر گیا، جبکہ اس کا کام فقط ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا ہی تھا لیکن چونکہ سیاست دان بھی اپنے اصل فریضے کی ادائیگی کے قابل نہ تھےان کا کھلنڈرا پن اس پنجابی محاورے کے مصداق تھا کہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن داں گے۔ (کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے) افسوس! ہماری غیر فوجی حکومتیں بھی آئین سازی اور اس کے اطلاق کے حوالے سے سول نہ بن سکیں۔ پہلے دستور بنانے میں غیر معمولی تاخیر، جب ملک ٹوٹنے کے بعد بنا لیا تو اس کے مکمل اطلاق میں انتہائی بے ایمانی، نتیجتاً 1958سے 1999تک فوجی اور نیم سول کشمکش جاری رہی۔ اب جاری عشرے میں فوج میں ایٹ لارج اور ثابت شدہ بھی اور بین الاقوامی صورتحال کے باعث بھی اقتدار سے دور رہنے اور خود کو ممکنہ حد تک آئین کے تابع رکھنے اور سیاست دانوں کو ہی حکومت کرتے رہنے کا اعتراف پیدا تو ہوا ہے۔
بدقسمتی ہے اور جاری ہے کہ اسٹیٹس کو کے سیاست دان، جو زیادہ تر فوجی ادوار کے ہی گھڑے ہوئے ہیں اس موقع کا غلط فائدہ اٹھا کر آئین و قانون کی پابندی سے جمہوریت اور سول حکومتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے پھر فوج کو اس سے مستقلاً اور یقیناً دور رکھنے کی کوششوں کے برعکس کھل کھلا کر خلاف آئین دھما چوکڑی مچا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بیل کو سرخ رومال دکھائے جا رہے ہیں۔
2008تاحال، قانون کا نفاذ مختلف طبقات اور مختلف حیثیت کے شہریوں کے لئے مختلف درجے پر جاری ہے، بالائی سطح پر تو ایک طبقہ آئین و قانون کی پیروی، جو سول بالادستی کی ضمانت ہے سے یکسر گریزاں ہے۔ بحیثیت مجموعی حکومت (بشمول صوبائی حکومتیں) اسی کیفیت میں ہے تبھی تو یہ سول ملٹری حقیقت میں حکومت ملٹری تعلقات (جو کہ اب اپنے فرائض کی ادائیگی میں منہمک ہے) اسے وہ سول تعاون بھی نہیں ملا جو آئین کا تقاضا ہے، جتنا ملا اور مل رہا ہے انتہائی نیم دلی عالم مجبوری میں اور مینگنیں ڈال کر، میڈیا کی ایجنڈے میں اتنی جگہ بنا گیا۔
معاملہ پاکستانی فوج کا نہیں، معاشرتی نفسیات کا ہے، جو طبقہ یا ریاستی ادارہ معاہدہ عمرانی کا جتنا پابند ہو گا اور اسے محترم جانے گا، وہ اتنا ہی اہم نتیجہ خیز اور عوام کی نظر میں محترم ہو گا، خواہ یہ خود حکومت ہو، فوج، عدلیہ، میڈیا یا بیورو کریسی اب 9سال سے معاہدہ عمرانی (آئین) کے مطابق غیر فوجی شہری ہی اقتدار و انتظام کے ذمہ دار ہیں اور افواج بھی ان سے کوئی اتنی جدا نہیں کہ ہم انہیں ایک علیحدہ مخلوق یا غیر فوجی سیکشن آف سوسائٹی سے الگ تھلگ سمجھیں۔ فوج معاشرے اور ریاست کے لئے اور اس معاشرے کا پوٹینشل اور منظم حصہ ہے جسے معاہدے میں دفاع وطن کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ ان ہی فوجیوں کے اہل خانہ رشتے داروں کی اکثریت غیر فوجی ہی ہوتی ہے لیکن فوجی سربراہ خاندان اور ان کے غیر فوجی بیوی بچے سب مل کر ہی پاکستانی معاشرے کا فیملی یونٹ بنتے ہیں، ان کی اپنی ایک Onenessہے۔
اوپن سیکرٹ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے نے اگر اتھارٹیرین سوسائٹیز، جہاں آمر حکمرانوں کی مرضی و منشا ہی عوام کی مرضی کے بغیر عمرانی معاہدہ بنا دیتی ہے، کے برعکس خود کو جمہوری مہذب معاشرے کے طور تشکیل دینا ہے تو خود حکومت کو ہر حال میں آئین و قانون کی مکمل پیروی کرنا ہو گی، پھر وہ یقیناً اس کے اہل ہو جائیں گے کہ غیر فوجی حکومتوں کی بالادستی ہو گی اور افواج اس نظام کا ناگزیر حصہ۔ یہی حقیقی معنوں میں سول بالادستی ہو گی۔ حکمران آئین سے منہ موڑ کر اور شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ سے کھلم کھلا روگردانی کر کے کبھی سول بالادستی قائم نہ کر سکیں گے۔ وہ خود بھی ڈگمگاتے رہیں گے اور ملک کے ساتھ دونوں نے مل کر جو کیا ہے، وہی ہوتا رہے گا۔ عوام میں اگر انہیں ڈھب پر لانے کی سکت نہیں تو وہ کوئی سول سوسائٹی نہ ہوں گے نہ حکومت حقیقی معنوں میں سول ۔

.
تازہ ترین