• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھوک ننگ افلاس ہنوز زیر التوا
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے:میٹرو سڑکیں، ترقیاتی منصوبے اپنی جگہ لیکن عوام جلد انصاف کے طلب گار ہیں، عدلیہ سائل کی زندگی آسان بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے، یہ قول اب تو بہت زیادہ سچ ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ ہمارا نظام عدل بھی اصلاح طلب ہے، عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں، سائل بیچارا پہلے ہی گھائل ہے عدالتوں کے چکر اس کے پائوں میں پڑے ہیں، ظاہر ہے پا بہ چکر انسان چلے، آگے بڑھے تو کیسے؟ میٹرو، سڑکیں ترقیاتی منصوبے سب ٹھیک ہیں نہیں ہے تو عوام کی زندگی ڈھب سے نہیں گزر رہی ان کی حالت بالکل ویسی ہو گئی ہے کہ جیسے خواجہ غلام فریدؒ نے بیان کی؎
گزر گئی گزران اے غم دے سانگ رُلیو سے
ڈٹھڑا جُمل جہان اے کجھ نہ پلڑے پیوسے
غریب لوگوں کو ابھی تک پوری طرح یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اور ان کی نسلیں کیوں غریب ہیں، وہ غریب پیدا نہیں ہوتے، ان کے حصے کے بجٹ کی ایلوکیشن تو پروردگار عالم کر کے ہی انہیں دنیا میں بھیجتا ہے پھر اس کا حصہ کون کھا جاتا ہے، غربت تو ساری دنیا میں ہے لیکن ہمارا اور دوسرے ملکوں کا غریب ایک جیسا نہیں، جائیں امریکہ برطانیہ میں وہاں کے غریب کو ٹنڈے لاٹ کی پروا نہیں، جو امیر کھا سکتا ہے وہ بھی کھاتا ہے، تعلیم بھی یکساں ہے، وزیراعظم اپنا سامان خود اٹھاتا ہے، کسی کے لئے سڑک بند نہیں ہوئی، ایسے ماحول میں تو غریب بھیخود کو غریب نہیں محسوس کرتا، بات صرف یہ ہے کہ ان اقوام کی ترجیحات درست ہیں، ہم بھوکے کے لئے سڑک پہلے بناتے ہیں اس کی روزی روٹی کا بندوبست زیر التواہے۔
٭٭٭٭
مینوں دھرتی قلعی کرا دے!
عمران خان نے کہا ہے:شریف خاندان بتائے اتنا پیسہ کہاں سے آیا، کیا پیتل سے سونا بنانا سیکھ لیا ملک کے سب سے بڑے ڈاکو کو جیل بھجوانے تک پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ کراچی میں مصطفیٰ کمال نے اپنے شو آف پاور جلسے میں عوام سے مطالبہ کیا عوام سڑکوں پر نکل آئیں، حکومت نہیں چلنے دیں گے، شیخ رشید نے کہا پیو جیل جائے گا۔ اس کیٹیگری کے بیانات اور بھی ہیں، انسان اور حکمران کوئی کبوتر نہیں کہ تالی بجانے سے اڑ جائے گا، جو فیصلے فقط عدالتو ںنے سنانے ہوتے ہیں، وہ سیاستدان سنا رہے ہیں، کیا ان میں سے کسی سے توقع کی جا سکتی کہ اگر اقتدار میں آ گئے تو انصاف اور قانون کی چلنے دیں گے؟ لگتا ہے خان صاحب کے پاس پیتل سے سونا بنانے کا نسخہ موجود ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں؎
میں پتل بھری پرات
مینوں دھرتی قلعی کرا دے
میں نچاں ساری رات
شریف خاندان سے عدالت ہی پوچھ سکتی ہے کہ اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، ہمارے ہاں محلے میں بھی کوئی امیر ہو جائے اہل محلہ چہ میگوئیاں کرتے ہیں اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ یہی انداز ہماری سیاست میں بھی ہے، کاش جن کے پاس پیسہ نہیں آیا وہ بھی سیاست میں قدم رکھ سکتے تو آج یہ باتیں سرے سے وجود ہی نہ رکھتیں کہ فلاں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، پیسہ اخبار گلی تو اب بھی انار کلی میں موجود ہے، لیکن پیسہ اقتدار گلی سیاستدانوں حکمرانوں کی گلی ہے، مصطفیٰ کمال سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، اسی لئے تو وہ عوام کو سڑکوں پر نکالنے کے لئے بیقرار ہیں کہ وہ بھی یہ مقام پا لیں کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا، گرفتار ہو چکے ہیں یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہے، شیخ رشید سیاست گلی کے ٹرک ڈرائیور ہیں کیونکہ ٹرکوں والے سارے پپو ہوتے ہیں اور تنگ کرنا ہی ان کو آتا ہے، خان صاحب کے پاس اقتدار میں آنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نواز شریف اپنی بس اڈے سے نکالیں تاکہ وہ اپنی بس لگا دیں۔
٭٭٭٭
مردانہ آواز
یکسانیت بھی بڑی بور کر دینے والی خاموش قوت ہے، تبدیلی پر عمران خان نے دھکے سے قبضہ کر لیا ورنہ تبدیلی تو ہم سب کی ہر لمحہ اشد ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یار لوگوں نے تبدیلی کو بھی بدل ڈالا مگر یہ غریبوں کو اب بھی ہانٹ کرتی ہے، بیشک انسان پسند سب کو کرے دل ہی دل میںلیکن وفا دار کسی ایک کا رہے، یہی آداب محبت ہیں، اور ہم تو اب اپنی محبتوں میں بھی بڑے بے ادب ہو چکے ہیں، یہ بات سچ ہے کہ مرد اپنی مردانہ آواز سے زنانہ آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صرف آواز ہی مردانہ ہوتی ہے، پچھلے دنوں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے ایم کیو ایم کے ایک مرد رکن کی بلند و بھاری آواز میں بولنے پر کہا!’’آپ مجھے اپنی مردانہ آواز سے مرعوب نہیں کر سکتے‘‘ اگر آواز پر ہی فیصلہ منحصر ہوتا تو لتا بھی اتنی مقبول نہ ہوتی جتنے مقبول سنگر محمد رفیع تھے، فضیلت اوصاف سے ملتی ہے، مردانہ آواز سے نہیں، اب دیکھیں ناں جو سسرال میں گھر داماد بن کے رہتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد، بیویوں پر جو ہاتھ اٹھاتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد، اور خزانے کو جو نقب لگتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد، بچوں کے مجبور کرنے کا بہانہ بنا کر رشوت جو لیتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد، آواز کی گھن گرج سے جو عورت کو ڈراتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد، اور غالب جو چھیڑ چھاڑ کو تسلیم کرتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد برائے ثبوت ان کا یہ شعر پیش خدمت ہے؎
میں انہیں چھیڑوں اور وہ کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پئے ہوتے
اور بقول اکبر الٰہ آبادی مسجد سے جوتیاں جو چراتا ہے سو ہے وہ بھی ایک مرد۔
٭٭٭٭
’’ماں منی تے رب منیا‘‘ :مریم نواز
....Oشیخ رشید:پیو جیل جائے گا۔
بزرگ ہو چکے اب تو پپو کے لئے پریشان ہونا چھوڑ دیں، ایک عمر گزار دی پپو پپو پکارتے۔
....Oبلاول:کلین سویپ کا خواب،
یہ سویپنگ کوئی اچھا کام نہیں زرداری صاحب نے آپ پر بڑے پیسے لگائے ہیں۔
....Oفرانس کے نو منتخب صدر نے افتتاحی تقریب میں اپنا وہی پرانا سوٹ پہنا البتہ بیوی نے کپڑوں کی دکان سے ایک سوٹ کرائے پر لے کر پہنا،
....Oطاہر القادری:حکمرانوں کے دن گنے جا چکے انہیں گھر جانا ہی پڑے گا۔ مومن خان مومن نے شبِ ہجر سے کہا تھا؎
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
....Oمائوں کے عالمی دن پر محترمہ مریم نواز نے کہا:’’ماں منی تے رب منیا‘‘
سچ پر کیا تبصرہ کریں ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘

.
تازہ ترین